اب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس عقیدۂ تقدیر کے کیا کیا سبق ہیں‘ اس کے کیا کیا ثمرات ہیں اور کتنی بڑی بڑی نعمتیں اس میں پوشیدہ ہیں. سورۃ الحدید کی یہ آیت ہم قبل ازیں پڑھ آئے ہیں: 

مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿ۚۖ۲۲
’’نہیں پہنچتی کوئی مصیبت نہ زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوا موجود ہے اس سے پہلے کہ ہم اسے ظاہر کر دیں. یقینا یہ اللہ پر بہت آسان ہے.‘‘

اب اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ اس سے اگلی آیت میں بیان ہوا ہے : 
لِّکَیۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰىکُمۡ ؕ ’’تاکہ تم رنج و غم نہ کیا کرو اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اترایا نہ کرو اس چیز پر جو اللہ تمہیں دے دے‘‘. انسان کا معاملہ یہ ہے کہ جب کوئی تکلیف یا مصیبت آ گئی تو فوراً مایوس ہو گیا‘ بددل ہو گیا‘ افسردہ و آزردہ ہوگیا. اس سے بھی آگے جھنجھلاہٹ ہوئی کہ کیوں ہوا‘ کیسے ہوا‘ نہیں ہونا چاہیے تھا. فرض کیجیے کہ آپ پر کوئی تکلیف کسی دوسرے شخص کے ذریعے سے آئی ہے تو اس پر آپ کو غصہ آئے گا اور انتقامی کیفیات پیدا ہوں گی. یہ سب کی سب کیفیات صرف اس ایک سوچ سے ختم ہو جاتی ہیں کہ یہ تو اللہ کی طرف سے تھا اور یہ ہونا ہی تھا .اب یہ غم و غصہ ‘ رنج و صدمہ‘ مایوسی (frustration) اورجھنجھلاہٹ‘ سب کا سب ختم ہو گیا یہاں میری یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ اس دورمیں جو ذہنی بیماریاں ہمارے اندر اور خاص طو رپر کھاتے پیتے لوگوں میں بہت زیادہ عام ہو رہی ہیں بلکہ ہو چکی ہیں ‘ ان میں اصل دخل انہی کیفیات کو ہوتا ہے. اب اگر انسان کو یہ یقین ہو کہ یہ تو ہونا ہی تھا اور یہ سب اللہ کی طرف سے ہے تو رنج و غم کی یہ ساری کیفیات ختم ہو جائیں گی اور انسان ذہنی بیماریوں سے بھی محفوظ رہے گا. 

اس حوالے سے یہ یاد رکھیں کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی نے آپ پر زیادتی کی ہے تو آپ بدلہ نہ لیں. اگر کسی نے آپ پر زیادتی کی اور آپ انتقام لینے پر قادر ہی نہیں ہیں تو آپ ’’قہر ِدرویش بر جانِ درویش‘‘ کے مصداق اندر ہی اندر پیچ و تاب کھائیں گے‘البتہ اگر آپ انتقام پر قادر ہیں توآپ کے سامنے دو راستے 
(options) ہیں. چاہے تو آپ اسے معاف کر دیں اور چاہے تو آپ اس سے بدلہ لے لیں. اب دیکھئے ‘قرآن حکیم فطرتِ انسانی سے بہت قریب تر اور بہت متوازن کتاب ہے کہ اس میں ان دونوں کا جواز اور ان دونوں کی حکمت موجود ہے. چنانچہ ایک مقام پر فرمایا: وَ اِنۡ تَعۡفُوۡا وَ تَصۡفَحُوۡا وَ تَغۡفِرُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ (التغابن) ’’اور اگر تم معاف کر دو‘ اور بخش دو ‘اور درگزر سے کام لو تو یقینا اللہ بھی بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے‘‘.ایسا رویہ اختیار کرنے سے انسان کوروحانی ترقی حاصل ہوگی. لیکن اس میں ایک اندیشہ بھی ہے کہ اُس شخص میں شرارت کرنے کی ہمت مزید بڑھ جائے گی. ایک شخص نے آج آپ کو تھپڑ مارا ہے اور آپ نے بھی جوابی تھپڑ رسید کر دیا تو آئندہ کے لیے اسے ہوش آ جائے گا ‘اور اگر آپ اسے معاف کر دیتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ کل کسی اور کو تھپڑ ماردے. اس اندیشہ سے بچنے کے لیے ’’قصاص ‘‘یعنی بدلہ لینے کا معاملہ ہے: وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ (البقرۃ:۱۷۹’’اے عقل والو! قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے‘‘.قصاص کو زندگی قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ دُنیا کا نظام قصاص کے بغیر نہیں چل سکتا. اس قصاص ہی کا ایک نظام ہے جو ہم نے اپنے طو رپر قائم کر رکھا ہے .پولیس ‘ تھانے‘ عدالتیں اور پھانسی کے تختے سب اسی لیے تو ہیں. اگر یہ نہ ہوں تو بدمعاش‘ شریر اور غنڈے آئے دن کسی نہ کسی کو تنگ کرتے رہیں. یہ دوسری بات ہے کہ ہمارے ہاں کرپشن کی وجہ سے یہ چیزیں اب اتنی مؤثر نہیں رہیں ‘لیکن بہرحال یہ نظام تو اسی لیے بنایا گیا تھا کہ اس سے ان جرائم کی روک تھام ہو گی. اب اگر کسی شخص نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے تو آ پ کے پاس معاف کرنے اور انتقام لینے کے دونوں آپشن ہیں. آپ کو اس شخص پر زیادہ غصہ اس وقت آئے گا جب آپ یہ سمجھیں کہ اس نے اپنی مرضی سے یہ کیا ہے ‘لیکن جب آپ کے علم میں ہو گا کہ ایسا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا ہی تھا تو آپ کا غصہ اتنی شدت کا نہیں ہو گا. بہرحال اس شخص نے یہ زیادتی کی ہے لہٰذا آپ اس سے انتقام لینے میں حق بجانب ہیں. 

اس حوالے سے میں ایک واقعہ سنایا کرتا ہوں کہ ایک درویش یہ کہتے ہوئے جارہا تھا: ’’جو ربّ کرے سو ہو‘ جو ربّ کرے سو ہو!‘‘ ایک شخص نے اسے پتھر مار دیا. اُس نے پلٹ کر دیکھا تو پتھر مارنے والے نے کہا :کیا دیکھ رہے ہو ؟جو ربّ کرے سو ہو! اُس 
درویش نے کہا کہ مجھے پتھر تو اللہ کے حکم سے ہی لگا ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں بیچ میں منہ کالا کس کا ہوا ہے؟ یعنی وہ کون ہے جس نے اپنے لیے اللہ کا غصہ‘ اللہ کا عذاب کمایا ہے!بہرحال چونکہ درمیان میں کوئی شخص ذریعہ بن گیا ہے اس لیے آپ اس سے بدلہ لے سکتے ہیں.