سورۃ التوبہ کی جو آیت میں نے خطاب کے آغاز میں آپ کو سنائی اس کا پس منظر سمجھ لیجیے. جب حضور نے غزوۂ تبوک کا ارادہ کیا اور اعلانِ عام کر دیا کہ ہم سلطنت روما کے ساتھ ٹکراؤ کے لیے جا رہے ہیں ‘اس لیے تمام مسلمان چلیں. چنانچہ اس نفیر عام کی بدولت آپؐ کی حیاتِ دنیوی کا سب سے بڑا یعنی تیس ہزار کا لشکر آپ کے جلو میں تھا. صورتِ حال یہ تھی کہ شدید گرمی تھی‘ قحط کا عالم تھا اور کھجور کی فصل مکمل تیار تھی .صاف نظر آ رہا تھا کہ اگر لوگ چلے جائیں تو فصل خراب ہو جائے گی‘ گل سڑ جائے گی. ظاہر بات ہے کہ کھجور کے بلند و بالا درخت کے اوپر چڑھ کر کھجوریں اتارنا عورتوں کے کرنے کا کام تونہیں ہے . ان سخت حالات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا شدید ترین امتحان ہو گیا اور منافقین نے کہا کہ ہوش کے ناخن لو‘ کیا تم اس شدید گرمی اور قحط کے عالم میں شہنشاہِ روم سے ٹکرانے جا رہے ہو ‘ کیا تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے؟ تو اس کا جواب زیر مطالعہ آیت میں نبی اکرم کی زبان مبارک سے دلوایا گیا: 

قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ۚ ہُوَ مَوۡلٰىنَا ۚ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۵۱﴾ 
(التوبۃ) 
’’کہہ دو کہ ہم پر کوئی مصیبت واقع نہیں ہو سکتی مگر وہی جو ہمار ے ربّ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے ‘ وہ ہمارا مولیٰ ہے ‘اور اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے ایمان والوں کو.‘‘
ایمان والوں نے منافقین کو یہ جواب دیا کہ اللہ ہی ہمارا دوست ہے‘ وہ ہمارا پشت پناہ اور ہمارا ولی ہے. وہ جو کرے ہمیں قبول ہے ؏ ’’سرتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے‘‘ ؎

نہ شود نصیب دشمن کہ شود ہلاکِ تیغت
سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی!

یعنی اللہ کی طرف سے جو بھی آئے وہ ہمارے لیے خوش آئند ہے ‘چاہے ہمیں وقتی طور پر ناگوار محسوس ہو یا وہ جسمانی طور پر تکلیف دہ ہو .اسی کا نام تسلیم و رضا ہے‘ یعنی اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا اور کوئی شکوہ و شکایت نہ ہونا ‘ نہ اللہ سے اور نہ کسی اور سے.اسی کیفیت کا نام نفس مطمئنہ ہے. جیسے تیز سے تیز آندھی بھی مضبوط چٹان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اسی طرح وہ شخص جس کا اللہ پر اور اللہ کے علم قدیم پر ایمان ہو وہ بھی ان مصائب میں نہیں ڈگمگائے گا.