ایمان بالقدر کا تقاضا : اذنِ ربّ اور توفیق ربّ کے بغیر کچھ نہیں ہو گا!

تقدیر کے حوالے سے میں نے یہ عرض کیا کہ اس سے انسان کا خوف ختم ہو جاتا ہے کہ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ‘ سوائے اس کے کہ جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور جو اللہ کے علم میں ہے وہ کبھی ٹل نہیں سکتا. اللہ میرا مالک‘میر ا آقا ‘میرا دوست ہے اور میری مصلحتوں سے مجھ سے زیادہ واقف ہے. میں تو اپنی نگاہ کی محدودیت (short sightedness) کی وجہ سے کسی چیز کو اپنے لیے اچھا سمجھ لیتا ہوں ‘ حالانکہ اصل کے اعتبار سے وہ میرے لیے بری ہوتی ہے اور جسے میں برا سمجھ رہا ہوتا ہوں درحقیقت وہ میرے لیے اچھی ہوتی ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۱۶﴾٪ (البقرۃ) ’’اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو اپنے لیے نقصان دہ سمجھو حالانکہ اسی میں تمہارے لیے خیر ہو‘اور ہو سکتا ہے کہ کسی چیز کو تم پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے لیے بری ہو. اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے‘‘. تقدیر پر ایمان لانے سے ایک تو خوف ختم ہو جاتا ہے اور دوسرا تقدیر سے انسان میں ایک توکل پیدا ہوتا ہے کہ جب تک اللہ کا اذن نہ ہو میں کر بھی کچھ نہیں سکتااور اللہ کا یہ اذن اس کے قدیم علم کی بنیاد پر ہے. 

قرآن حکیم میں کئی مقامات پر اللہ کے علم کے بارے میں فرمایا گیا: 
اِنَّ رَبِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ ﴿۹۲﴾ (ھود) ’’یقینا جو کچھ تم کر رہے ہو میرے ربّ کا علم اُس کا احاطہ کیے ہوئے ہے‘‘. اب اگر میں یہ سمجھوں کہ میں اپنی کوشش اور محنت سے کوئی کام کر سکتا ہوں تو یہ بھی اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ‘اس لیے کہ میں ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے اللہ کی قدرت اور علم سے باہر تو نہیں جا سکتا .اس پہلو سے یہ بات بھی جان لو کہ اللہ کے علاوہ کسی اورپر توکل مت کرو. سورۃ التکویر میں فرمایاگیا: وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿٪۲۹﴾ ’’اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہ جو اللہ رب العالمین چاہے‘‘.یعنی صرف تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہو گا جب تک کہ اللہ نہ چاہے. اسی کو ہم ’’توفیق‘‘ کہتے ہیں. ایک اذنِ ربی ہے. آپ نماز پڑھنے جانا چاہتے ہو ‘اس ارادہ پرآپ کو ثواب مل جائے گا. اب اگر اللہ نہ چاہے تو آپ ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے. اسی طرح اگر آپ چوری کرنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی choice ہے اور ظاہر بات ہے اس پر آپ کی پکڑ ہو گی‘ اس لیے کہ چوری کا فیصلہ آپ کا اپنا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو شخص نیکی کے راستے پر چلنا چاہتا ہے اس کے لیے اللہ عزوجل کی طرف سے راستے آسان کر دیے جائیں گے: فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡیُسۡرٰی ؕ﴿۷﴾ ’’پس اس کو ہم آسان طریقے کی توفیق دیں گے‘‘. اور جوبرائی کا راستہ اختیار کرتا ہے اللہ اسے آہستہ آہستہ سختی میں پہنچا دے گا: فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡعُسۡرٰی ﴿ؕ۱۰﴾ ’’پس ہم اس کے لیے سختی کا راستہ آسان کر دیں گے.‘‘

الغرض جب انسان کو یہ یقین آ جائے کہ اذنِ رب اور توفیق رب کے بغیر میں کچھ نہیں کر سکتا تو پھر اسی سے توکل جنم لیتا ہے . مثلاً اگر آپ نے رات کو فیصلہ کیا کہ صبح آپ نے سفر کرنا ہے اور آپ کے پاس سارے اسباب و وسائل موجود ہیں . گاڑی کی بھی آپ نے چیکنگ کروا لی ہے ‘ پٹرول کی ٹینکی بھی فل ہے ‘اس سب کے باوجود اگر آپ نے سمجھا کہ میں چلا جاؤں گا تو آپ دھوکے میں ہیں‘ فریب میں ہیں. سورۃ الکہف میں اس کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے: 
وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ۫ ’’ہرگز کبھی مت کہنا کہ میں یہ کام کل ضرور کروں گامگر یہ کہ اگر للہ نے چاہا‘‘. انگریزی میں کہتے ہیں: There is many a slip between the cup and the lip دودھ کا پیالہ تمہارے ہاتھ میں ہے اور تمہارا خیال ہے کہ جب میں چاہوںگااسے پی جاؤں گا‘ لیکن اس دودھ کے پیالے کو ہاتھ سے ہونٹوں تک آنے میں بہت سے مراحل طے کرنے ہیں. اس کے راستے میں نامعلوم کتنی مادی قوتیں موجود ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی رکاوٹ ڈال دے تو وہ دودھ کا پیالہ آپ کے ہونٹوں تک نہیں پہنچ پائے گا.

درحقیقت یہ تقدیر کا دوسرا پہلو ہے‘ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ محنت نہ کریںاو رہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں‘ بلکہ آپ امکانی حد تک جدوجہد کریں اور کبھی یہ نہ سمجھیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے آزاد ہو جائیں گے اور جو جی چاہے کر لیں گے. واقعہ یہ ہے کہ عقیدۂ تقدیر ہمارے لیے سب سے بڑی نعمت ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے بس ایک فارمولا کافی ہے کہ ہر چیزاللہ کے علم قدیم میں ہے‘ لیکن پہلے سے طے شدہ نہیں ہے اور انسان کو 
اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا ﴿۳﴾ میں سے کوئی بھی راستہ چننے کا اختیار حاصل ہے. تبھی تو یہ جزا و سزا کا سارا معاملہ ہے. قرآن مجید کا فلسفہ زندگی جزا و سزا کے گرد گھومتا ہے : خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ (الملک:۲’’اُس نے پیدا کیا موت اور زندگی کو تاکہ تمہاری آزمائش کر سکے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے.‘‘ ؎

قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی!

قرآن مجید کا فلسفہ زندگی و موت یہی ہے کہ اللہ نیکوکاروں کو ان کے اعمال کے بدلے اجرو ثواب اور اپنی نعمتوں سے نوازے گا اور برے لوگوں کو ان کی برائیوں کے سبب سزا دے گا. اللہ تعالیٰ نے اعمال کے نتائج کے اعتبار سے ہر شخص کا سامان تیار کر رکھا ہے . بدبخت لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے . اسی طرح اہل ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت تیار کررکھی ہے جو ان کے استقبال کے لیے بے قرار ہے. اس اعتبار سے بھی یہ ایمان بالقدر کا عقیدہ ہمارے لیے بہت سکون اور راحت کا باعث ہے .اس کو اقبال نے بڑے پیارے انداز میں بیان کیا ہے ؎

بروں کشید ز پیچاکِ ہست و بود مر
چہ عقدہ ہا کہ مقامِ رضا کشود مرا!

یعنی اللہ کی رضا پر راضی رہنے نے مجھے کیسی کیسی الجھنوں سے نجات دے دی ہے. وہ پیچ وتاب اور 
frustration ‘ اندر ہی اندر کا غصہ اور صدمہ‘ وہ مایوسی اور بددلی‘ وہ خوف اور اندیشے کہ یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو جائے‘ ان سب الجھنوں سے ایمان بالقدر کے عقیدے نے مجھے نجات دلا دی اور مجھے یہ یقین ہو گیا کہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا‘ ایک پتا تک نہیں ہل سکتا جب تک کہ اذنِ ربی نہ ہو. اور میرے رب نے جو بات میرے لیے لکھ دی ہے مجھے اس پر کوئی رنج اور افسوس نہیں ؎

نشانِ مرد مؤمن با تو گویم
چو مرگ آید تبسم بر لب اوست!