تقدیر کے معاملہ میں ایک مسئلہ اور بھی ہے جو درج ذیل حدیث سے سمجھ میں آ جائے گا.  حضرت ابوخزامہ رضی اللہ عنہاپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے پوچھا: اَرَاَیْتَ رُقًی نَسْتَرْقِیْھَا وَدَوَائً نَتَدَاوٰی بِہٖ وَتُقَاۃً نَتَّقِیْھَا ھَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللّٰہِ شَیْئًا؟ ’’اے اللہ کے رسول! ہم اپنی بیماری پر جھاڑ پھونک کراتے ہیں (اُس وقت تک شاید اس کی ممانعت نہ آئی ہو) یا کوئی دوا کھاتے ہیں یا یہ کہ ہم کسی شے کے شر سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ‘تو کیا اس سے اللہ کی تقدیر میں کوئی فرق واقع ہوتاہے؟‘‘اُس کے جواب میں رسول اللہ نے فرمایا: ھِیَ مِنْ قَدَرِ اللّٰہِ (۲’’یہ (ساری چیزیں بھی) اللہ کی اس قدر (اندازہ) میں شامل ہیں‘‘. یعنی یہ بھی اللہ کے علم میں ہے کہ یہ شخص بیمار ہو گا تو علاج کرانے سے ٹھیک ہو جائے گا. اس لیے یہ سب بھی اس تقدیر الٰہی کا حصہ ہیں. 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المُسلمین والمُسلمات 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب القدر‘ باب العمل بالخواتیم.
(۲) سنن الترمذی‘ کتاب الطب‘ باب ما جاء فی الرقی والادویۃ.