بدعت کا سبب : عبادت اور عبادات میں فرق نہ کرنا

بدعات جنم لینے کاسب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اکثر لوگ عبادت اور عبادات کے تصور کو خلط ملط کر جاتے ہیں اور پھر اس سے معاملات الٹی سمت میں چلنے لگتے ہیں. عبادت اور عبادات دو الگ الگ چیزیں ہیں. عبادت تو ایک جامع لفظ ہے کہ پوری زندگی میں ہمہ وقت‘ ہمہ تن اور ہمہ وجوہ اللہ کی اطاعت محبت الٰہی کے جذبہ سے سرشار ہوکر کی جائے. یہ چونکہ بہت مشکل کام ہے اور اس میں بہت سی رکاوٹیں ہیں چنانچہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے چارعبادات نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ فرض کی ہیں. یہ چاروں عبادات دین کے ستون ہیں. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت بمنزلہ چھت کے ہے جو ان ستونوں کے سہارے کھڑی ہے. بغیر چھت کے ستونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے. اسی طرح ستونوں کے بغیر چھت بھی قائم نہیں رہ سکتی. معلوم ہوا کہ عبادت اور عبادات لازم و ملزوم ہیں‘لیکن اگر عبادت اور عبادات میں ایک طرح کا مقابلہ شروع ہو جائے تو اس مقابلے سے عبادت کا جامع تصور اور اس کی ہمہ گیریت ذہن سے محوہو جاتی ہے. اس کے بعد عبادات پر زور بڑھنا شروع ہوجاتا ہے اور یہ سارا معاملہ نیکی کے جذبے سے سرشار ہو کر اور پوری نیک نیتی کے ساتھ ہوتا ہے اس کو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جب عبادت کا ہمہ گیر اور جامع تصور ذہنوں سے اوجھل ہوجاتا ہے تو اب نیکی کا جذبہ عبادات پر مرتکز ہو جاتا ہے . پھر ان عبادات میں غلو ہوتا ہے اور حد سے آگے بڑھنے کی ایک شکل پیدا ہوجاتی ہے. اس کو ایک مثال سے یوں سمجھئے کہ اگر آپ ایک طشت میں پانی ڈالتے ہیں تو اس پانی کی اونچائی ایک یا دو انچ ہو گی اور اگر آپ اسی پانی کو کسی بوتل میں ڈال دیں تو اس کی اونچائی دس انچ ہو جائے گی. یہی معاملہ ہمارے دین کا ہے. جب عبادت کا ہمہ گیر اور وسیع تصور سکڑکر عبادات میں آ گیا تو وہ تصور محدود ہو گیا. یقینا اس سے عبادات میں غلو پیدا ہو گا‘ نئی نئی چیزیں اس میں شامل ہوں گی اور یہ پورے خلوص اور نیک نیتی سے ہوگا. اس تصور کو واضح کرنے کے لیے میں نے ابتدا میں سورۃ الحدید کی آیت ۲۷ تلاوت کی : وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡہُمۡ اَجۡرَہُمۡ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۲۷﴾ 
’’انہوں نے رہبانیت کی بدعت ایجاد کر لی تھی جس کا ہم نے ان کو حکم نہیں دیا تھا مگر (انہوں نے اپنے خیال میں) اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے (خود ہی ایسا کر لیا) پھر جیسا اس کو نبھانے کا حق تھا ویسا نباہ نہ کرسکے.‘‘

اس آیت کے آغاز میں 
’’ابتدعوھا‘‘ آیا ہے. اس کا مادہ بھی بدع ہے‘ بابِ افتعال میں یہ ابتداع بن گیا.