حضرت مسیح اور حضرت یحییٰ علیہما السلام انتہائی زاہد تھے اور دونوں کو دنیا سے کوئی لگاؤ نہ تھا‘ اس لیے دونوں نے شادی نہیں کی. لہٰذا ان کے متبعین ‘جو بہت خدا ترس تھے اور ان میں تقویٰ اور خشیت الٰہی کا بہت غلبہ تھا‘ ان کے اندر بھی اس اعتبار سے غلو پیدا ہوا اور پھر اس سے انہوں نے رہبانیت کا نظام بنایا اور یہ عہد کیا کہ ساری عمر شادی نہیں کریں گے اور خانقاہوں میں پوری زندگی گزاریں گے . ابتدائی زمانے میں واقعتا ایسے لوگ تھے جنہوں نے رہبانیت کا حق ادا کیا ‘لیکن اکثر و بیشتر لوگ اس کی پابندی نہیں کر پائے. انہوں نے رہبانیت کو اپنے اوپر لازم تو کر لیا اور یہ عہد کر لیا کہ اب شادی نہیں کریں گے لیکن اس کا پوری طرح حق ادا نہ کر سکے .اس کے بعد جب عیسائیوں میں خانقاہی نظام (monasticism) کا زوال آیا ہے تو پھر کہنے کو تو راہب خانے ہوتے تھے لیکن وہ برائیوں کی آماجگاہ بن چکے تھے. وہاں راہب مرد اور راہبہ عورتیں موجود ہوتی تھیں اور آپ کو معلوم ہے کہ کسی بھی جگہ عورت اور مرد کا قرب قیامت سے کم نہیں ہوتا. لہٰذا ان راہب خانوں میں سب کچھ ہوتا تھا‘ زناکاری ہوتی تھی‘ حرامی بچے پیدا ہوتے تھے اور پھر تہہ خانوں میں ان ناجائز بچوں کی قبریں بنتی تھیں. یہ باتیں فرضی نہیں ہیں بلکہ History of Christian Monasticism پر لکھی گئی کتابوں میں خود عیسائی مصنفین نے ان باتوں کا اعتراف کیا ہے. یہ تباہ کاریاں اس لیے ہوئیں کہ انہوں نے فطرت کے تقاضوں کے خلاف غیر فطری قدغنیں لگادیں . اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک دریا زور و شور سے بہہ رہا ہے اور آپ اس کے آگے بند باندھیں تو دریا کا پانی اس بند کو فوراً بہا کر لے جائے گا. اسی طرح عیسائیت کے اس خانقاہی نظام کے ساتھ ہوا. چنانچہ اس آیت میں فرمایا گیا: فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ ’’پھر وہ اس کی پابندی بھی نہیں کر پائے‘ جیسے کہ پابندی کرنے کا حق تھا‘‘.یہ دراصل حکم الاکثر حکم الکُل ہے . کچھ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں ‘اس لیے کہ بعض لوگ ایسے تھے جنہوں نے پوری عمر رہبانیت کے تقاضے پورے کیے‘ لیکن اکثریت اس کا حق ادا نہ کر سکی اور یہ اصول ہے کہ اکثریت کا جو معاملہ ہو گا اسی پر کل کا اطلاق ہو گا.

آیت کے اگلے حصے میں فرمایا: 

فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡہُمۡ اَجۡرَہُمۡ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۲۷﴾ 

’’پس جو لوگ ان میں سے صاحب ایمان تھے ہم نے انہیں اس کا اجر عطا کیا‘ لیکن ان میں اکثر لوگ فاسق تھے.‘‘

آیت کے اس حصے کے دو ترجمے اور دو مفہوم ہو سکتے ہیں. ایک مفہوم یہ ہے کہ عیسائیوں میں سے جو نبی آخر الزماں حضرت محمد پر ایمان لے آئے تو ان کو دوہرا اجر ملے گا. بعض احادیث میں بھی آیا ہے کہ اگر اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ میں سے کوئی حضرت محمد پر ایمان لائے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے. اس لیے کہ وہ پہلے اپنے نبی کو مانتے تھے اور اپنی شریعت کے پابند تھے اور اب وہ محمد کو مان رہے ہیں اورآپؐ کی شریعت کے پابند ہو گئے ہیں. اس آیت کا دوسر امفہوم یہ ہے کہ ان راہبوں میں سے جو لوگ واقعی صاحب ایمان تھے اور جنہوں نے اس عہد کی پابندی کی جو انہوں نے کر لیا تھا تو ہم ان کو ان کا اجر عطا کریں گے. اور ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ ان کی اکثریت فاسقوں اور غلط کار لوگوں پر مشتمل ہے‘ جنہوں نے اس کا حق ادا نہیں کیا.