چند صحابہ کا عبادات میں غلو کا عہد اور نبی اکرمﷺ کا اعلانِ براء ت

بدعت کے سبب کے حوالے سے پہلی بات میں نے آپ کے سامنے یہ عرض کی کہ جب عبادت کا تصور محدود ہو جائے تو سارا زور عبادات پر ہو جاتا ہے‘ پھر اس میں غلو پیدا ہو تا ہے اور نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں. اسی کے ضمن میں ایک اور حدیث میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں. حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہؓ کی ایک جماعت نے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن سے حضور کے گھریلو اعمال و عبادات کے بارے میں معلوم کیا‘یعنی حضور رات کو کتنی دیر جاگ کر نوافل پڑھتے ہیں اور کتنی دیر آرام فرماتے ہیں اور مہینے میں کتنے روزے رکھتے ہیں اور کتنے دن افطار کرتے ہیں‘ وغیرہ. جب ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن نے رسول اللہ کے معمولات بتا دیے تو انہوں نے سوچا کہ یہ عبادات تو کم ہیں. ان کے خیال میں تھا کہ حضور رات کو ایک لمحہ کے لیے بھی کمربستر پر نہیں لگاتے ہوں گے اور آپؐ مسلسل روزے رکھتے ہوں گے‘ کبھی ناغہ نہیں کرتے ہوں گے. پھر انہوں نے اپنے آپ کو اطمینان دلانے کے لیے سوچا کہ یہ تو نبی اکرم کا معاملہ ہے جو معصوم عن الخطا ہیں اور ان سے کوئی گناہ سرزد ہو ہی نہیں سکتا‘ جبکہ ہم تو گناہگار ہیں‘ اس لیے یہ ہمارا معاملہ نہیں ہو سکتا. تو ان میں سے ایک نے کہا میں ساری رات آرام نہیں کروں گا بلکہ عبادت کروں گا. دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا کبھی ناغہ نہیں کروں گا.تیسرے نے کہا کہ میں ساری عمر شادی نہیں کروں گا. حضوراکرم کو جب اس سارے معاملے کی خبر ہوئی تو آپؐ نے ان کو طلب کر کے انتہائی غیر معمولی الفاظ ارشاد فرمائے: 

اَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا؟ اَمَا وَاللّٰہِ اِنِّیْ لَاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ لَـہٗ‘ لٰـکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاُصَلِّیْ وَاَرْقُدُ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَائَ‘ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ 
(۱
’’یہ تم لوگ ہو جنہوں نے ایسی ایسی باتیں کی ہیں؟ اللہ کی قسم! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کا تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں‘ لیکن میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں‘ اور (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں‘ اور میں نے عورتوں سے شادیاں بھی کی ہیں. پس جسے میری سنت پسند نہیں اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں.‘‘ 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب النکاح‘ باب الترغیب فی النکاح. یہی معاملہ ایک بہت مشہور صحابی کا ہوا . 

حضرت عمرو بن العاص ص کے صاحبزادے حضرت عبداللہ ص بھی انتہائی زاہد اور عابد تھے. ان کے بارے میں آتا ہے کہ یہ ساری رات نوافل پڑھتے اور روزانہ روزہ رکھتے تھے. ان کو نہ بیوی سے کوئی سروکار تھا اور نہ دنیا کے کسی اور معاملے سے . جب رسول اللہ کو ان کے اس معمول کا پتا چلا تو آپؐ نے انہیں بلا کر پوچھا : یَاعَبْدَ اللّٰہِ اَلَمْ اُخْبَرْ اَ نَّکَ تَصُوْمُ النَّھَارَ وَتَقُوْمُ اللَّیْلَ ’’اے عبداللہ !مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم ہر روزروزہ رکھتے ہو اور پوری پوری رات (نفل میں) قیام کرتے ہو‘‘. آپؓ نے عرض کیا: بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ’’ایسا ہی ہے یارسول اللہ!‘‘ آپؐ نے فرمایا: فَلَا تَفْعَلْ ’’پس ایسا ہرگز مت کرو‘‘ صُمْ وَاَفْطِرْ وَقُمْ وَنَمْ ’’روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرو‘ قیام بھی کرو اور نیند بھی کرو‘‘ فَاِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِعَیْنِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا (۱’’اس لیے کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے ‘اور تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے‘ اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے.‘‘