بدعات کا دوسرا بڑا سبب روحِ عبادت کا ختم ہوجانا ہے اور یہ نیک نیتی سے نہیں بلکہ جہالت اور غفلت کی بنا پر ہوتا ہے. یہ یادرکھیں کہ اگر عبادات میں سے روحِ عبادت نکل جائے تو عبادات کے ظاہر پر ارتکاز زیادہ ہو جاتا ہے اور پھر ظواہر میں اضافہ ہونا شروع ہوتا ہے‘ اور طرح طرح کی رسومات ایجاد ہوتی ہیں. مثلاً کسی کے فوت ہونے کے بعد اس کو غسل دینا‘ کفن پہنانا ‘ بہت احترام کے ساتھ کندھوں پر اٹھا کے قبرستان لے جانا ‘ نماز جنازہ پڑھنا‘ اچھے طریقے سے دفن کرنا اور پھر آخر میں اس کی بخشش کے لیے دعا کرنا مسنون اعمال ہیں. اس کے بعد کوئی رسم نہیں‘ لیکن لوگ اس میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں. پہلے ہم نے ہندوؤں سے ’’تیجا‘‘ لیا‘ پھر اس تیجے کو’’ سوئم‘‘ کا نام دے دیا.پھر اسے ’’قل‘‘ اور ’’قرآن خوانی‘‘ کے نام سے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب النکاح‘ باب لزوجک علیک حق. موسوم کردیا. اس کے علاوہ ساتواں‘ دسواں ‘ پھر چالیسواں اور پھر برسی جیسی رسومات ایجاد کر لیں. اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ یہ ُکل کی کل بدعات ہیں. 

اس طرح شادی میں دعوت ولیمہ کے سوا باقی تمام دعوتیں اور رسومات اسراف اور تبذیر کے ذیل میں آتی ہیں. اس کے بارے میں فرمانِ باری تعالیٰ ملاحظہ ہو : 
اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ(الاسرائ:۲۷’’یہ مبذرین (دولت کو نمود و نمائش کے لیے اڑانے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں‘‘. اس ضمن میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ملاحظہ ہو. مجھے یہ حدیث بہت پسند ہے اور میں اکثر اسے اپنے خطبات میں بیان کرتا ہوں. حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: مَا مِنْ نَبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ فِیْ اُمَّۃٍ قَبْلِیْ اِلاَّ کَانَ لَہٗ مِنْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحَابٌ’’اللہ نے جس نبی کو بھی اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس قوم میں اس نبی کے کچھ نہ کچھ حواری اور ساتھی ضرور ہوتے تھے‘‘.اب یہ ساتھی تھوڑے ہوں یا زیادہ ‘ ہوتے ضرور تھے‘ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواری تھے ‘جبکہ نبی آخر الزماں کے صحابہ کی تعداد ہزاروں میں تھی. ان اصحاب کا معمول یہ تھا : یَاْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَـقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ ’’وہ اپنے نبی کی سنت پر عمل پیرا ہوتے تھے اور ان کے احکامات بجا لاتے تھے‘‘. ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مَنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَا لَا یُؤْمَرُونَ (۱’’پھر ہمیشہ یہ ہوتا رہاکہ ان اصحاب کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہو گئے جوکہتے وہ تھے جو کرتے نہیں تھے اور کرتے وہ تھے جس کا انہیں حکم نہیں دیا گیا‘‘.ہرنبی کے ماننے والوں میں ایسا ہوا ہے اور امت محمدؐ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے عید میلاد النبی کیا حضور کا حکم ہے؟ کیا اس کا کوئی ثبوت صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے؟ کیا ہم ’’میلاد النبی‘‘ کی تقریبات منا کر یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم صحابہ کرامؓ کے مقابلے میں حضور سے زیادہ محبت کرتے ہیں؟ اصل بات وہی ہے جو اس حدیث میں بیان ہوئی کہ ہر نبی کے پیروکاروں میں کچھ عرصہ (۱) صحیح مسلم ‘ کتاب الایمان‘باب بیان کون النھی عن المنکر عن الایمان… گزرنے کے بعد ایسے لوگ آ جاتے ہیں جو کرتے وہ ہیں جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا. یہ ہے درحقیقت رسم پرستی اور پھر رسم کے اندر اضافہ ہوتے چلا جانا.