اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’’عبادت‘‘ کا مفہوم کیا ہے. لفظ عبادت عبدسے نکلا ہے‘عبد غلام کو کہتے ہیں اور غلام آقا کی ملکیت ہوتا ہے‘ صرف ملازم نہیں ہوتا. ملازم تو چند گھنٹوں یا کسی خاص ڈیوٹی کے لیے ہوتا ہے اور اس کام کو کرنے کے بعد وہ آزاد ہے‘ جو چاہے کرے‘ جہاں چاہے جائے. مثلاً کسی کو آپ نے اپنا ڈرائیور رکھا ہے تو وہ آپ کا کھانا تو نہیں پکائے گا. اسی طرح اگر کسی کو آپ نے خانساماں رکھا ہے تو وہ آپ کا ٹائلٹ صاف نہیں کرے گا. اگر آپ اسے کہیں گے بھی تو وہ صاف کہے گا کہ یہ میری ذمہ داری نہیں ہے‘ میں اس کام کے لیے آپ کا ملازم نہیں ہوں. جبکہ غلام کی حیثیت ایسی نہیں ہوتی . غلام کوہمہ تن‘ ہمہ وقت اور ہمہ وجوہ اپنے آقا کی اطاعت کرنا ہوتی ہے.اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی اور نہ اس کی کوئی ملکیت ہوتی ہے. وہ کسی چیز کا مالک کیا بنے گا وہ تو خود مملوک ہے. آقا اسے جہاں سونے کو کہے گا ‘ وہاں سونا ہو گا اور جہاں اور جس وقت جانے کو کہے گا جانا ہو گا. اس کا اپنا کوئی ارادہ ہے نہ پروگرام اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل‘ بلکہ وہ تو آقا کے اشارئہ ابرو پر چلے گا. یہ ہے عبادت کا مفہوم‘ کہ اللہ (جو ہمارا آقاہے) کی اطاعت میں عبدیت (غلامی) کا تصور ہر وقت ذہن میں نقش رہے. اسی کو فارسی میں بندگی کہا جاتا ہے.شیخ سعدی ؒ کامشہور شعر ہے: ؎

زندگی آمد برائے بندگی زندگی بے بندگی شرمندگی!

یعنی ہمیں زندگی فقط بندگی کے لیے ملی ہے ‘اگر بندگی نہیں کریں گے تو یہ شرمندگی ہی شرمندگی ہو گی پچھلے زمانے میں ایسیاشعار بھی مساجد میں لکھے ہوتے تھے.

یہاں غلامی اور عبادت کا فرق بھی ذہن نشین رہے کہ غلام جو آقا کی اطاعت کر رہا ہے وہ مجبوری سے کررہا ہے ‘کیونکہ اس نے اُسے خریدرکھا ہے ‘وہ اس کا مالک ہے اور اس نے اس کی قیمت ادا کی ہے .لیکن سمجھ لیجیے کہ یہ بھی عبادت نہیں ہے. عبادت میں کرنا تو وہی ہے جو ربّ تعالیٰ کی منشا ہے ‘لیکن مجبور ہو کر نہیں بلکہ محبت الٰہی کے جذبۂ مستانہ سے سرشار ہو کر اپنی جبین نیاز کو بارگاہِ الٰہی میں اس ادا سے رکھنا کہ جسم ظاہری کے روئیں روئیں سے انا عبدک ‘ انا عبدک کی صدائے حق بلند ہو. اسی لیے میں نے عبادت کے مفہوم میں بندگی کے ساتھ’’پرستش‘‘کا لفظ بھی شامل کیا تھا‘ اس لیے کہ پرستش ہوتی ہی محبت کے ساتھ ہے.مثلاً اگر آپ دولت کے پرستار ہیں تو آپ کے دل میں دولت کی محبت ہے‘ وطن پرست ہیں‘ قوم پرست ہیں‘ نفس پرست ہیں تو یقینا ان کی محبت آپ کے دل میں موجود ہے.لہٰذا جب بندگی اس جذبۂ اُلفت میں ڈوب کر کی جائے گی تو وہ عبادت کا مقام حاصل کرے گی. 

ایک بات سمجھ لیجیے کہ ہماری عبادت کا اس مقام و مرتبہ تک پہنچنا انتہائی مشکل کام ہے‘ لہٰذا اس ضمن میں صحیح طرزِ عمل یہ ہوگا کہ آپ طے کر لیں کہ مجھے چلنا اسی راستے پر ہے.پھر اس راہ میں نشیب و فراز آئیں گے‘ کہیں قدم ڈگمگائیں گے‘ کہیں جذبات کا غلبہ ہو گا‘ کبھی ناامیدی ہی ناامیدی چھائے گی اور کسی جگہ اُمید کی کرن نظر آئے گی ‘مگرآپ کو بندگی اور پرستش کے راستے پر مسلسل چلتے رہنا ہے. اگر کہیں قدم پھسل گیا تو وہیں کیچڑ میں پڑے نہیں رہنا‘ کبھی بھی کسی گناہ پر مصر نہیں ہونا اور ڈیرہ ڈال کر نہیں بیٹھنا. جب بھی کوئی ایسی لغزش سرزد ہو جائے تو فوراً توبہ کر کے بخشوانا ہے‘ ورنہ ایک ہی گناہ تباہی اور ہلاکت کے لیے کافی ہے.یہ ہے عبادت کا جامع مفہوم!