(۱) اقامت ِصلوٰۃ: عبادت کے اس اعلیٰ مرتبہ کو آسانی سے پانے اور اللہ کی بندگی اور پرستش کے جذبہ کو تازہ رکھنے کے لیے چار عبادات فرض کر دی گئی ہیں جن کا ذکر زیر مطالعہ حدیث میں ہوا ہے .یہ چاروں اسلام کے ارکان اور اسلام کی عمارت کے چارستون ہیں.ان میں سب سے مقدم اور اہم نماز ہے.نماز کو دن میں پانچ مرتبہ فرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے مقصد ِ تخلیق ’’عبادتِ رب‘‘ کو نہ بھولے.اس لیے کہ نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھی جاتی ہے اوراس سورۃ کی سات آیات (انہیں ’’سبع مثانی‘‘یعنی بار بار پڑھی جانے والی آیات بھی کہا جاتا ہے)میں مرکزی اور چوٹی کی آیت چوتھی ہے : اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ چونکہ اس آیت میں ’’نَعْبُدُ ‘‘ اور ’’ نَسْتَعِیْنُ‘‘ فعل مضارع کے صیغے ہیں اور عربی زبان میں فعل مضارع حال اور مستقبل دونوں کو cover کرتا ہے‘ اس لیے اس آیت کا ترجمہ یوں ہوگا: ’’ اے اللہ! ہم تیری ہی بندگی و پرستش کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے‘ اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگتے رہیں گے ‘‘ .یہ قول و قرار دن میں پانچ مرتبہ نماز کی ہر رکعت میں دہرایا جائے. حفیظ جالندھری نے کیا خوب کہا ہے : ؎

سرکشی نے کر دیے دھندلے نقوشِ بندگی
آؤ سجدے میں گریں لوحِ جبیں تازہ کریں!

تو انہی نقوشِ بندگی کو تازہ رکھنے کے لیے اوّلین اور اہم ترین ذریعہ نماز ہے. 
(۲) صیامِ رمضان: 
دوسرے یہ کہ آپ کے ساتھ نفس ِحیوانی لگا ہوا ہے ‘جس کے تقاضے بھی حیوانی ہیں .ان تقاضوں میں سے سب سے اہم دو چیزیں ہیں: (۱) خوراک (۲)جنسی جذبۂ شہوت. زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے خوراک ضروری ہے‘ ورنہ مر جائیں گے ‘اور نسل انسانی کی بقا کے لیے جذبہ شہوت یعنی شادی بیاہ ضروری ہے ‘ورنہ نسل ختم ہو جائے گی. لیکن یہ دونوں حیوانی داعیے (animal instincts) اتنے طاقتور ہیں کہ جب اندر سے اُبھرتے ہیں تو اندھے بہرے ہو تے ہیں . انہیں صرف اس سے غرض ہوتی ہے کہ کسی طرح ان کی تسکین ہونی چاہیے.بھوک لگتی ہے تو پیٹ کچھ کھانے کو مانگتا ہے .اسے اس سے غرض نہیں کہ جو چیز اس میں ڈالی جارہی ہے وہ حلال ہے یا حرام ‘ بس اس کی تو بھوک مٹنی چاہیے. اسی طرح جب جذبۂ شہوت بھڑک اٹھے تو وہ اپنی تسکین چاہتا ہے‘ جائز راستے سے ہو یا ناجائز راستے سے. 

یوں سمجھئے کہ ہمارا یہ حیوانی وجود گھوڑے کی مانند ہے اور ہمارا روحانی وجود یعنی وجودِحقیقی اس پر سوار ہے .اگرگھوڑا منہ زور ہے اور سوار کمزور ہے تو سوار گھوڑے کے رحم و کرم پر ہے‘وہ جہاں چاہے اُسے پٹخ دے گا‘جس کھائی میں چاہے اسے گرا دے گا. چنانچہ اس پر سواری کے لیے ضروری ہے کہ اس روحانی وجود کو طاقتور بنایا جائے‘اس کی خودی اور انا کو مضبوط کیا جائے تاکہ یہ بھوک اور شہوت کی شدت کو برداشت کر سکے. اس مقصد کے حصول کے لیے روزہ فرض کر دیا گیا کہ سارا دن بھوکے اور پیاسے رہو‘ چاہے سخت گرمی ہی کیوں نہ ہو. طلوع ِفجر کے بعد سے غروب ِآفتاب تک کھانے پینے کی ہر جائز چیز بھی آپ پر حرام ہے. اپنی منکوحہ بیوی سے بھی روزہ کی حالت میں تعلق قائم کرنا حرام ہے. اس منہ زور گھوڑے کو لگام دینے کے اس عمل کو تقویٰ سے تعبیر کیاگیاہے‘ یعنی بچ بچ کر چلتے رہو اور حیوانی وجود پر مکمل کنٹرول حاصل کرو ‘اسے آزاد مت چھوڑو! 

(۳) ایتائے زکوٰۃ: 
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے. قرآن مجید کے الفاظ ہیں: وَ اِنَّہٗ لِحُبِّ الۡخَیۡرِ لَشَدِیۡدٌ ؕ﴿۸﴾ (العٰدیٰت) ’’بلاشبہ وہ (انسان) مال کی محبت میں بہت سخت ہے ‘‘. دُنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے سامانِ زندگی تو ضرور چاہیے اور یہ پیسے سے حاصل ہوتا ہے ‘لہٰذا کسی حد تک اس کی ضرورت ہے‘ لیکن انسان اس سے بہت آگے بڑھ کر دولت پرست اور مال کا پجاری بن جاتا ہے.انسان اس کی محبت میں اندھاہو جاتا ہے اور حلال و حرام کی پروا کیے بغیر صبح وشام مال جمع کرنے کی فکر میں رہتا ہے‘ بلکہ اس کے لیے ظلم اور غصب کا راستہ اختیار کرنے سے بھی نہیں کتراتا. اس طرزِ عمل سے روکنے کے لیے اسلام نے زکوٰۃ کا نظام نافذ کیا کہ دوسروں کو اللہ کے لیے دیتے رہنے کی عادت ڈالو ‘ زیادہ سے زیادہ راہِ خدا میں خرچ کرو. لوگ صرف زکوٰۃ کی ادائیگی ہی کافی سمجھتے ہیں ‘حالانکہ حدیث میں ہے: 

اِنَّ فِی الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّکٰوۃِ 
(۱
’’تمہارے مال میں (غریبوں کے لیے)زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے.‘‘ 

اس کو فقہی اصطلاح میں ’’صدقاتِ نافلہ‘‘کہتے ہیں . زکوٰۃ چونکہ فرض ہے اس لیے وہ تو علی الاعلان دی جائے گی ‘جبکہ صدقاتِ نافلہ رازداری اور خفیہ طریقے سے دیے جائیں گے . ایک ہاتھ سے دیا جائے تو دوسرے ہاتھ تک کو خبر نہ ہو‘ اس کا ڈھنڈورا نہ پیٹا جائے.اسلامی ریاست میں اموالِ ظاہرہ پر زکوٰۃ حکومت وصول کرتی ہے اور اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ ہر ایک کو انفرادی طو رپر ادا کرنی ہوتی ہے. 

(۴) حج بیت اللہ : 
ارکانِ اسلام میں آخری رکن حج ہے‘ اس میں مذکورہ تینوں عبادات کی حکمتیں جمع کر دی گئی ہیں. ذکر الٰہی بھی ہے کہ بآوازِ بلند تلبیہ پڑھاجاتا ہے‘ طواف کے دوران بھی اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے‘ پھر شعائر اللہ کی زیارت ہے ‘ بیت اللہ کو صرف دیکھنا بھی باعث اجرو ثواب ہے. اسی طرح احرام میں روزے جیسی کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں کہ چاہے بیوی ساتھ ہے پھر بھی تعلق زن و شو قائم نہیں ہو سکتا .پھر یہ کہ مال بھی خرچ ہوتا ہے ‘ حج کے لیے ایک خطیر رقم درکار ہوتی ہے . گویا تمام عبادات میں جامع ترین عبادت حج ہے . یہی وجہ ہے کہ جس کا حج اللہ کے ہاں قبول ہو جائے وہ اس طرح گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے جس طرح آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا ہے.

یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ حج کے مذکورہ فوائد تبھی حاصل ہوں گے جب وہ حج حلال کمائی سے کیا گیا ہو حرام سے نہیں ‘وہاں احرام کی ساری پابندیوں کا لحاظ رکھا ہو اور حج کے سارے اعمال بڑی عمدگی اور اعلیٰ اسلوب کے ساتھ ادا کیے ہوں.اس کے ساتھ حج کے دوران کوئی بے حیائی اور گناہ کا کام بھی نہ کیا ہو ‘جس کے بارے میں قرآن نے فرمایا: 

اَلۡحَجُّ اَشۡہُرٌ مَّعۡلُوۡمٰتٌ ۚ فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوۡقَ ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّ ؕ 
(البقرۃ:۱۹۷(۱) سنن الترمذی: ابواب الزکوۃ‘ باب ما جاء ان فی المال حقا سوی الزکوٰۃ ’’حج کے مہینے معروف ہیں.تو جس نے اپنے اوپر لازم کرلیا ان مہینوں میں حج کو تو (اس کو خبردار رہنا چاہیے کہ)دورانِ حج نہ تو شہوت کی کوئی بات کرے‘نہ فسق و فجور کی اور نہ لڑائی جھگڑے کی.‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 
مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہُ اُمُّہٗ 
(۱
’’جو شخص اللہ کے لیے حج کرے اور اس میں بے حیائی کی بات نہ بولے اور گناہ کاکام نہ کرے تو وہ لوٹ کر آتا ہے (اور گناہوں سے اس طرح پاک ہوتا ہے ) گویا اس کی ماں نے اس کو آج ہی جنا ہے.‘‘