کلمۂ شہادت‘ اسلام میں داخلے کی بنیاد

اس حدیث میں جو ارکانِ خمسہ بیان ہوئے ہیں ان میں پہلا رکن کلمۂ شہادت اسلام میں داخلے کی بنیاد ہے ‘جبکہ باقی ارکانِ اربعہ (نماز‘زکوٰۃ‘روزہ اور حج)‘جو اسلام کے ارکان اور چوٹی کے اعمال ہیں‘ان پر عمل نہ کرنے کی بنیاد پر کوئی شخص کافر قرارنہیں (۱) سنن ابن ماجہ‘ کتاب الزھد‘ باب ذکر التوبۃ. وسنن الترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع. پائے گا‘ البتہ ان میں سے کسی کے انکار پر کافر ہوجائے گا مختلف فقہاء کے نزدیک تارکِ صلوٰۃ کو تعزیر کے طور پر جسمانی سزا دی جائے گی‘ اسے قید کیا جائے گا اور اسے توبہ پر مجبور کیا جائے گا. بعض فقہاء کا موقف ہے کہ اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے‘ اس لیے کہ ایک حدیث میں الفاظ آئے ہیں: 

بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاۃِ 
(۱
’’بندے اور کفر و شرک کے مابین نماز کا معاملہ حائل ہے.‘‘

لیکن یہ قتل کرنا بھی تعزیراً ہو گا‘ اُسے مرتد سمجھتے ہوئے نہیں.جیسے شادی شدہ زانی پرحد جاری کر کے اسے رجم کے ذریعے قتل تو کیا جائے گا ‘ لیکن اسے مرتد سمجھتے ہوئے نہیں.
دراصل اسلام میں داخل ہونے یا شامل رہنے کے لیے بنیاد صرف ایک چیز بنتی ہے اور وہ کلمۂ شہادت ہے.چنانچہ کوئی شخص ہمارے سامنے آ کر کہتاہے: ’’ اَشْھَدُ اَنْ لاَ اِلٰــــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اََشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ توہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مسلمان نہیں ہے. اگرچہ قرائن موجود ہوں اور حالات یہ گواہی دے رہے ہوں کہ اُس نے دل سے کلمہ نہیں پڑھا تب بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ مسلمان نہیں ہے.

ایک جنگ میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے ایک ایسے ہی شخص کی جان لے لی تھی. حضرت اسامہؓ کی کفار کے لشکر میں سے ایک شخص سے مڈبھیڑ ہو گئی. وہ شخص حضرت اسامہؓ کی تلوار کی زد میں تھا کہ اُس نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا. حضرت اسامہؓ نے سمجھا کہ یہ جان بچانے کا حیلہ کر رہا ہے ‘لہٰذا اس پر تلوار چلا دی اور سر قلم کر دیا. بعد میں اُسامہؓ جب رسول اللہ کے سامنے پیش ہوئے تو آپؐ نے انتہائی ناراضگی کا اظہار فرمایا. رسول اللہ نے فرمایا :’’ اے اسامہ! اُس وقت تم کیا کرو گے جب قیامت کے دن یہ کلمۂ شہادت تمہارے خلاف گواہی دینے کے لیے آئے گا!‘‘

قرآن کریم میں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اپنے اسلام کا اظہار کرے تو اسے یہ مت کہو کہ تم مؤمن نہیں ہو!سورۃ النساء کی آیت ۹۴ میں ارشاد ہوا: (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ. ترمذی کی روایت میں الفاظ ہیں: بَیْنَ الْکُفْرِ وَالْاِیْمَانِ تَرْکُ الصَّلَاۃِ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوۡا وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا ۚ 
’’اے اہل ِایمان! جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور کسی ایسے شخص کو جو تمہارے سامنے سلامتی پیش کرے (تمہیں سلام کہے یا اپنا اسلام پیش کرے) یہ نہ کہو کہ تم مؤمن نہیں ہو.‘‘

یہ بات حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کردہ حدیث جبریل سے بھی ثابت ہوتی ہے .اِن کی روایت میں ہے کہ جب جبرائیل ؑ نے کہا: حَدِّثْنِیْ بِالْاِسْلَامِ ’’مجھے اسلام کے بارے میں بتایئے‘‘تو رسول اللہ نے فرمایا: اَلْاِسْلَامُ اَنْ تُسْلِمَ وَجْھَکَ لِلّٰہِ ’’اسلام یہ ہے کہ تو اپنے چہرے کو اللہ کے سامنے جھکا دے (سرتسلیم خم کر دے)‘‘.یہ لفظ اسلام کے ساتھ معنوی مناسبت رکھتا ہے‘اس لیے کہ اسلام کے لغوی معنی ہی اطاعت قبول کر لینا (to surrender) ہے.

’’عباداتِ اربعہ‘‘ میں سے دو چیزوں (نماز اور زکوٰۃ) کا ذکر سورۃ التوبہ کی ابتدائی آیات میں بھی آیا ہے. اس اعلانِ عام کے بعد کہ مشرکین عرب کو صرف چار مہینوں کی مہلت ہے‘ ارشاد ہوا: 
فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾ 
(التوبۃ) 

’’جب عزت کے مہینے گزر جائیں تومشرکوں کو جہاں پائو قتل کردو‘ اور ان کو پکڑ لو اور گھیر لو‘ اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو. پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نمازقائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو. بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے.‘‘