اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں داخلے کی بنیاد کلمہ شہادت ہے اور اس کا عملی اظہار ’’عباداتِ اربعہ ‘‘ سے ہو گا اور ان کی حقیقت اور روح ’’عبادتِ رب‘‘ ہے. ’’عبادت‘‘ اور ’’عبادات‘‘ کا فرق سورۃ البینہ کی اس آیت میں بھی واضح کیا گیا ہے جو خطاب کے شروع میں تلاوت کی گئی : 

وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ؕ﴿۵﴾ 
(البینۃ) 
’’اور انہیں نہیں حکم ہوا تھا مگر اس بات کا کہ اللہ کی یکسو ہو کرعبادت کریں اسی کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے ‘اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں‘ اور یہی ہے ہمیشہ کا قائم دین.‘‘

یعنی دین ان چیزوں پر قائم ہے. اس آیت میں عبادت‘ نماز‘ زکوٰۃ تینوں کے درمیان ’’وائو‘‘ آ رہی ہے.عربی گرامر میں اس کو واوِعطف کہتے ہیں اور عطف دو چیزوں کے درمیان مغائرت ثابت کرتا ہے ‘یعنی پہلی چیز اور ہے دوسری اور ہے.جیسے ہم اردو میں کہتے ہیں:’’ قلم و پینسل‘‘.اس مرکب میں قلم اور شے ہے اور پینسل اور شے . اسی طرح محولہ بالا آیت میں عبادت اور شے ہے ‘نماز و زکوٰۃ اور چیزیں ہیں. تو معلوم ہوا کہ اصل عبادت کچھ اور ہے اور یہ عبادات (ارکانِ اسلام) اس کو سہارا (support) دینے کے لیے ہیں. اگر آپ نے صرف ستون کھڑے کر لیے اور ان کے اوپر چھت ہی نہیں ڈالی تو ان ستونوں کا فائدہ؟ آج ہمارے ذہنوں سے یہ بات نکل چکی ہے کہ ان ستونوں کے اوپر اسلام اور عبادت کی چھت بھی ضروری ہے ’’عبادت‘‘ اور ’’عبادات‘‘ کا یہ تصور اگر عام ہوجائے تو واقعہ یہ ہے کہ اُمت کی بہت بڑی اصلاح ہوجائے گی.ورنہ ان عبادات کی حیثیت صرف رسومات (rituals) کی رہ جاتی ہے. جیسے اقبال نے کہا تھا ؏ ’’رہ گئی رسم اذاں روحِ بلالی نہ رہی!‘‘ موجودہ دور میں یہ رسومات تو بہت بڑے پیمانے پر ہورہی ہیں .تقریباً ہر سال حج کی ادائیگی کے لیے مکہ میں پچیس ‘ تیس لاکھ لوگ جمع ہوتے ہیں ‘جبکہ رمضان کے آخری عشرہ میں یہ تعداد اس سے بھی بڑھ جاتی ہے ‘لیکن اس کا دنیا پر ماشہ بھربھی کوئی اثر نہیں ہوتا. دنیا جس رنگ میں چل رہی ہے ویسے ہی چلی جا رہی ہے. دنیا کے ہر کونے میں عالی شان مساجد تعمیر ہورہی ہیں لیکن نماز کی ادائیگی صرف رسومات کی حد تک رہ گئی ہے.

آج کل ہمارا حال وہ ہو چکا ہے جو رسول اللہ کی ایک بہت ہی لرزا دینی والی حدیث میں بیان ہوا ہے .حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا: یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ ’’اندیشہ ہے کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آ جائے گا‘‘ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلاَّ اسْمُہٗ ’’کہ اسلام میں سے سوائے اُس کے نام کے کچھ نہیں بچے گا ‘‘ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآنِ اِلاَّ رَسْمُہٗ ’’اور قرآن میں سے بھی سوائے اُس کے رسم الخط کے کچھ نہیں بچے گا‘‘. یعنی قرآن کی صرف تحریر بچ جائے گی اورقرآن کا نظام دنیا میں کہیں نظر نہیں آ ئے گا. مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدیٰ’’ان کی مسجدیں آباد تو بہت ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی‘‘. معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ!اور چوتھی بات سخت ترین ہے: عُلَمَائُ ھُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتِ اَدِیْمِ السَّمَائِ ’’ان کے علماء آسمان کی چھت کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے‘‘. مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ (۱’’انہی میں سے فتنے برآمد ہوں گے اور انہی میں لوٹ جائیں گے‘‘. یعنی فتنہ انگیزی اور فتنہ پروری کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں ہو گا. محمد ٌرسول اللہ  نے یہ بدترین زمانے کی پیشین گوئی کی ہے جس کے آثار ہم آج چشم ِسر سے دیکھ رہے ہیں.