حدیث جبریل میں بھی علاماتِ قیامت میں سے دو کا تذکرہ تھااور وہ بھی آج ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں.حدیث جبریل میں علاماتِ قیامت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں آپنے فرمایاتھا: اَنْ تَلِدَ الْاَمَۃُ رَبَّتَھَا ’’(جب تم دیکھو) کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے‘‘.اکثر محدثین کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ اولاد سرکش ہو جائے گی. آج ہمارے ارد گرد کتنے ہی ایسے بدبخت ہیں جو اپنے والدین کو اذیتیں دیتے ہیں ‘ان کو گالیاں دیتے ہیں.دوسری علامت یہ بیان فرمائی : (۱) رواہ البیھقی فی شعب الایمان‘راوی:حضرت علیص. وَاَنْ تَرَی الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ الْعَالَۃَ رِعَائَ الشَّائِ یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ’’اور یہ کہ تم دیکھو گے کہ ننگے پائوں‘ ننگے بدن ‘ محتاج ‘ بکریوں کو چرانے والے اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے‘‘ .یہ صورتِ حال آج ہمارے سامنے ہے. دبئی کہاں سے کہاں پہنچا ہوا ہے! سوسال پہلے یہاں کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا‘ پہننے کے لیے کپڑے نہیں تھے‘ پاؤں میں جوتے نہیں ہوتے تھے. پورے عرب کا یہی معاملہ تھا. حج میں قربانی کا سب سے بڑا مصرف یہ سمجھا جاتا تھا کہ انہیں کچھ کھانے کو مل جائے اور یہ لوگ تگ و دو کر کے گوشت اکٹھا کرتے اور خشک کر کے سال بھر کھاتے تھے. تقریباًستر اَسّی برس سے یہ صورتِ حال مکمل طور پر تبدیل ہو گئی ہے‘جب سے تیل دریافت ہوا ہے‘ ورنہ اس سے پہلے یہ مشرقی ساحل جہاں آج دبئی اور ابوظبی جیسے شہر آباد ہیں‘ یہاں فقط جھونپڑیوں پر مشتمل بستیاں تھیں اوران کا بکریاں چرانے اور مچھلیاں پکڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا تھا.اب یہ خوشحالی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ دنیا کا پہلا سیون سٹار ہوٹل دبئی میں تعمیر ہوا ہے . (۱