اب یہاں دو باتیں انتہائی اہم ہیں . ایک یہ کہ حدیث زیر مطالعہ میں مذکور چار عبادات نماز‘ روزہ‘ حج اورزکوٰۃ نہ صرف ارکانِ اسلام ہیں بلکہ انسان کی روحانی ترقی کا ذریعہ بھی یہی ہیں. یہ محض قانونی شرط پوری کرنے والی چیزیں نہیں ہیں. اگر نماز میں خشوع و خضوع پیدا ہو جائے تویہ ’’معراج المؤمنین‘‘ کا مرتبہ حاصل کر لیتی ہے. اگر روزہ پورے اہتمام سے رکھا جائے کہ آدمی جھوٹ‘ فحش گوئی اور لہو و لعب سے مکمل اجتناب کرے اور اسے اپنے نفس پر مکمل کنٹرول حاصل ہو جائے تو یہ روحانی ترقی کا بہت بڑا ذریعہ ہے. اسی طرح زکوٰۃ اور صدقات کا معاملہ ہے کہ اگر آدمی انفاقِ مال کے سبب دولت کی پرستش سے آزاد ہو جائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے. قرآن حکیم میں انفاق کا اعلیٰ ترین درجہ یہ بیان کیا گیا ہے : وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ (۱) بعد ازاں دبئی میں ’’برج خلیفہ‘‘ کی تعمیر بھی ہوئی‘ جو دنیا کی بلندترین عمارت ہے. (مرتب) (البقرۃ:۲۱۹’’اوریہ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ(اللہ کی راہ میں) کیا کچھ خرچ کریں؟کہہ دیجیے کہ جو بھی زائد از ضرورت ہو‘‘.یعنی اپنی ضرورت اور گزر اوقات کے لیے رکھ لو ‘باقی راہِ خدا میں دے دو. 

اس مسئلہ میں تھوڑی سی باریکی ہے ‘کہیں کوئی مغالطہ نہ ہوجائے.واضح رہے کہ روپیہ پیسہ اپنے پاس رکھنا حرام نہیں ہے‘بس شرط یہ ہے کہ حلال ذریعے سے کمایا گیا ہو.البتہ اعلیٰ روحانیت یہ ہے کہ اس میں سے صرف اپنی ضروریات کی حد تک اپنا حق سمجھو اور باقی اللہ کی راہ میں دے دو.تمہاری ضروریات سے زائد مال محرومین و مساکین کا ہے. اللہ نے ان کے مال کو تمہارے حصے میں ڈال کر تمہارا امتحان لیا ہے . تمہیں آزمایا جا رہاہے کہ تم ان کو لوٹا کر سبکدوش ہوجاتے ہو یا ان کے مال پر غاصبانہ قبضہ جما کر بیٹھے رہتے ہو. یہ اسلام کی اخلاقی اور روحانی تعلیم ہے ‘ورنہ تمہارے لیے اس کا رکھنا جائز ہے ‘ حرام نہیں ہے. زکوٰۃ کے بارے میں کوئی اختیار نہیں ہے ‘ وہ تو زبردستی لے لی جائے گی اور زکوٰۃ کے بعد جوباقی بچتا ہے اس میں تمہیں اختیار ہے . تم اسے اپنے پاس بھی رکھ سکتے ہو اور یہ وراثت کے طور پر تمہاری اولاد کو منتقل بھی ہو سکتا ہے. لیکن اگر روحانی ترقی چاہتے ہو تو ضرورت سے زائد مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کردو. تمہارے روحانی ارتقاء کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تمہارا مال ہے اور یہی روح کے لیے سب سے بڑی گندگی ہے. یہاں یہ بھی نوٹ کر لیں کہ رسول اللہ نے اپنی پوری زندگی اسی سطح پر گزاری ہے اور کبھی بھی زکوٰۃ ادا نہیں کی. میں جب یہ کہا کرتا ہوں کہ رسول اللہ نے پوری زندگی زکوٰۃ نہیں دی تو لوگ اس پر چونک جاتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نبی اکرم ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن کو ادا نہ کریں زکوٰۃ کا سوال تو تب پیدا ہوتا ہے جب آپؐ کچھ بچا کر رکھتے اور صاحب ِنصاب ہوتے. جب آپ نے اپنے پاس کچھ رکھا ہی نہیں تو زکوٰۃ کاہے کی؟
 
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایک خاص طبقہ جنہیں فقراء صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کہا جاتا ہے‘ انہوں نے اسی روحانی و اخلاقی سطح پر زندگی گزاری ہے .ان کے سرخیل حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ تھے. تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ طرزِ عمل نہیں تھا. فقراء صحابہؓ کے علاوہ باقی صحابہ کاروبار بھی کرتے تھے ‘ دولت رکھتے بھی تھے اور اللہ کی راہ میں دیتے بھی تھے. البتہ یہ صحابہ بھی ہر وقت آمادہ رہتے تھے کہ جب بھی مطالبہ آئے گا تو سارا مال پیش کر دیں گے. چنانچہ حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر اپنا سب کچھ لا کر دے دیا . حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہر موقع پر اپنا وافر ما ل اللہ کی راہ میں خرچ کیا. حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کا شمار فقراء صحابہ میں تو نہیں ہے‘ لیکن آمادگی ہر وقت تھی کہ یہ زائد مال امانت ہے‘ جب بھی وقت آئے گا‘ حاضر کردیں گے. چنانچہ یہ عبادات اللہ تعالیٰ کے راستے میں روحانی ترقی کی منزلیں اور سیڑھیاں ہیں. انہی سے ہو کر گزریں گے تو روحانی ارتقاء حاصل ہو گا. 

آپ کی نماز دل کی حضوری اور خشوع و خضوع کے ساتھ ہونی چاہیے.اگر آپ نے بس نماز پڑھ لی تو فقہی اعتبار سے فرض ادا ہو گیا‘لیکن اگر خشوع و خضوع اور حضورِ قلب کے ساتھ نماز پڑھی تو اس سے اعلیٰ درجے کی روحانی ترقی بھی حاصل ہو گی . حدیث میں آتا ہے کہ سجدہ کرو تو یوں محسوس کرو گویا اپنے ربّ کے قدموں میں سر رکھ دیا ہے .نماز میں اس کیفیت کے ساتھ قرآن مجیدکی تلاوت کرو کہ جو بھی رحمت والی آیت آئے تو فوراً اللہ سے رحمت کا سوال کرو اور عذاب والی آیت آئے تو فوراً اللہ کے عذاب سے معافی طلب کرو.نماز تو ایک طرح کا ڈائیلاگ ہونا چاہیے جیسے حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’میں نے صلوٰۃ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا ہے…‘‘علامہ اقبال نے اسے انائے کبیر (The Infinite Ego) اور انائے صغیر (The finite ego) کا مکالمہ قرار دیا ہے.اللہ تعالیٰ کی انانیت کبریٰ کا بیان سورۂ طٰہٰ میں بایں الفاظ ہواہے: 

اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِیۡ ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ ﴿۱۴﴾ 

’’بے شک میں ہی اللہ ہوں‘میرے سوا کوئی معبود نہیں‘ تو میری ہی عبادت کرو‘ اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو.‘‘ اس کیفیت کے ساتھ نماز پڑھی جائے تووہ یقینا روحانی ارتقاء کا باعث ہے. نماز وہی ہے‘ لیکن ادائیگی کی کیفیت کی وجہ سے نماز نماز میں فرق ہے .