عباداتِ اربعہ: اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیاد

اس ضمن میں آخری بات یہ عرض کروں گا کہ یہ جو چار عبادات زیر مطالعہ حدیث میں بیان ہوئی ہیں‘ اس دنیا میں اسلامی معاشرے کی تنظیم کی بنیاد بن جاتی ہیں. اقامت ِ صلوٰۃ‘ ایتائے زکوٰۃ‘ صومِ رمضان اور حج بیت اللہ اسلامی شعائر ہیں اور اسلامی تہذیب و تمدن کی علامات ہیں. ان سے دنیا میں اسلامی تہذیب کا ڈھانچہ وجود میں آتا ہے. مساجد اسلامی شعائر میں سے ہیں. یہ الگ بات ہے کہ اتنی جامع مساجد نہیں ہونی چاہئیں جتنی ہم نے بنا لی ہیں. مساجد اسلامی تمدن کی علامات بتمام و کمال تب بنیں گی جب اسلامی ریاست قائم ہو گی اور دارالحکومت کی جامع مسجد میں سربراہِ ریاست امام ہو گا. اسی طرح صوبائی دارالحکومت کی جامع مسجد میں گورنر خطبہ دے گا‘ اور اگر کسی چھوٹے علاقے کی مسجد ہے تو وہاں بھی اس علاقے کا سب سے بڑا انتظامی آفیسر حکومت کی اجازت سے خطبہ دے گا. یہ تو ہم نے ایک ایک محلے میں تین تین جامع مساجد بنا لی ہیں‘ ایک اہل حدیث کی‘ ایک بریلوی کی‘ ایک دیوبندی کی اور پھر لاؤڈ سپیکر کے ذریعے ایک دوسرے سے بلند آوازی کے ساتھ مقابلے ہو رہے ہیں. بہرحال اس سب کے باوجود مساجد کا وجود غنیمت ہے جن سے دین کا ایک ڈھانچہ قائم ہوتا ہے. 

اسلامی تہذیب و تمدن میں مسجد معاشرت کی تنظیم کی بنیاد ہے‘ بایں معنی کہ ایک علاقے میں پنج وقتہ نماز ہو رہی ہے ‘لوگ جمع ہوتے ہیں ‘پھر جب کوئی نمازی نہیں آتا تو لوگوں کو تشویش ہونی چاہیے کہ آج فلاں صاحب نہیں آئے‘ آؤ چل کر پتا کریں. ان مساجد کو تو معاشرتی رابطے (social contact) کا ذریعہ بننا چاہیے. یہ نہیں کہ نماز کے لیے آئے ‘نہ کسی کو دیکھا نہ کسی سے کچھ پوچھا‘ نہ کسی کی کوئی مزاج پرسی کی‘ بس سلام پھیرا اور چلے گئے. نبی اکرم تو نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ جاتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مختلف موضوعات پر گفتگو فرماتے تھے. دراصل ہمارے ہاںمسجد کا نظام ان ہی چیزوں پر مبنی ہے. 
آپ کو معلوم ہے کہ حج دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہے جو اس امت کی آفاقیت کا آج بھی سب سے بڑا مظہر ہے. اگرچہ آج اس کی روح موجودنہیں رہی‘ صرف ڈھانچہ رہ گیاہے ‘ لیکن پھر بھی یہ مسلمانوں کی آفاقیت کاایک بہت بڑا نشان ہے ؏ ’’کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت عظیم تھی!‘‘ امریکہ کا بہت بڑامسلم لیڈر مالکوم ایکس (Malcom X) جب حج کے لیے گیا تھا تو بیت اللہ کا منظر دیکھ کر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں اور وہ بے اختیار پکار اٹھا تھا کہ میں نے دنیا بھر میں کہیں ایسا منظر نہیں دیکھا کہ کالے ‘ گورے‘ پیلے‘ لال‘ الغرض ہر رنگ و تہذیب کے لوگ سب ایک جگہ پر ہیں اور اتنا امن ہے کہ کوئی جھگڑا نہیں‘ کوئی لڑائی نہیں‘ کوئی فساد نہیں. 
خلاصہ بحث یہ ہے کہ زیر مطالعہ حدیث تین حوالوں سے بہت اہمیت کی حامل ہے: (۱) یہ حدیث ’’عبادت‘‘ اور’’ عبادات‘‘کے تعلق کو واضح کرنے والی ہے. (۲) اس حدیث میں جن چار عبادات کا تذکرہ ہے وہ ارکانِ اسلام ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی روحانی ترقی کا زینہ بھی ہیں. (۳) یہی چار عبادات اسلام کے شعائر اور مظاہر بن کر معاشرے کی تنظیم کی بنیاد فراہم کرتی ہیں.
 
اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات