ان دو احادیث کا مضمون تقریباًایک جیسا ہی ہے . فرق صرف اتنا ہے کہ حدیث جبریل میں یہ مضمون حدیث کا ایک جزو ہے جبکہ یہ مکمل (independent) حدیث ہے. جہاں تک اس حدیث کے مشمولات (contents) کا تعلق ہے ان پر حدیثِ جبریل میں تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے‘ البتہ زیر مطالعہ حدیث کا آغاز جس جملے سے ہو رہا ہے : ’’ بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ‘‘ ( اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے) وہ انتہائی اہم اور غور طلب ہے. اس حدیث مبارکہ (جس میں ارکانِ اسلام کو بیان کیا گیا ہے) کے بارے میں لوگوںکو ایک غلط فہمی اور مغالطہ ہوا ہے کہ انہوں نے ارکانِ اسلام ہی کو اسلام کی مکمل تعبیر سمجھ لیا ہے. حالانکہ حدیث کا پہلا جملہ ہی اس تصور کی نفی کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اسلام کی بنیاد ان چیزوں پر ہے .اب یہ بالکل بدیہی امر ہے کہ بنیاد اور شے ہے اور عمارت اور شے . لہٰذایہ ارکانِ اسلام ہیں مکمل اسلام نہیں‘ جبکہ آج انہی ارکانِ خمسہ کو ُکل کا کل اسلام قرار دے دیا گیا ہے . اس تصور سے ایک بہت بڑی حقیقت نظر انداز ہو جاتی ہے اور یہ عام مغالطہ ہے جو لوگوں کو اس حدیث کے حوالے سے ہوا ہے. 
یہ حدیث بہت مشہور ہے اور اکثر مساجد میں کبھی اس حدیث کے حوالے سے بڑے بڑے چارٹ لٹکے ہوئے ہوتے تھے‘ جس میں ایک مسجد کی محراب کی سی شکل بنا کر اور اس میں پانچ ستون دکھا کر ارکانِ اسلام کا ایک نقشہ پیش کیا جاتا تھا.