قرآن مجید میں تخلیق انسانی کا مقصد عبادتِ ربّ قرار دیا گیا ہے .ارشادِ ربانی ہے: 

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ 
(الذّٰریٰت) 
’’میں نے ِجنوں ّاور انسانوں کو نہیں پیدا کیا مگر صرف اس لیے کہ میری بندگی اور پرستش کریں.‘‘

لہٰذا مقصد ِتخلیق ِانسانیت عبادتِ الٰہی ہے اور جمیع انبیاء کرام علیہم السلام اسی کی دعوت دیتے رہے ہیں. قرآن مجید کی مکی سورتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہود‘ حضرت صالح‘ حضرت ابراہیم ‘ حضرت موسیٰ ‘حضرت عیسیٰ الغرض تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کی دعوت ’’عبادتِ رب‘‘کی دعوت تھی: یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ (ھود:۵۰’’اے میری قوم! عبادت کرو اللہ کی جس کے سوا تمہارا کوئی پروردگار نہیں‘‘. تمام انبیاء کرام کی طرح نبی آخرالزمان حضرت محمد رسول اللہ کی دعوت بھی ’’عبادتِ ربّ‘‘ ہی کی دعوت تھی: یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾ (البقرۃ) ’ ’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلوں کو پیدا کیا‘ تاکہ تم بچ سکو‘‘.نبی اکرم کی دعوت اور سابقہ رسولوں کی دعوت میں ایک بنیادی فرق ہے کہ سابقہ انبیاء و رُسل علیہم السلام کا صیغۂ خطاب ’’یٰــقَوْمِ‘‘ (اے میری قوم کے لوگو!) ہوتا تھا‘ اس لیے کہ وہ کسی خاص علاقے اورکسی خاص قوم کی طرف مبعوث کیے جاتے تھے ‘جبکہ نبی آخر الزماں حضرت محمد کی دعوت کا صیغۂ خطاب تھا: ’’یٰٓــاَیـُّـھَا النَّاسُُ‘‘ (اے لوگو!) اس لیے کہ آپ کی دعوت عالمگیر اورآفاقی ہے ‘یعنی پوری نوع انسانی کے لیے ہے اس فرق کے باوجود سابقہ تمام انبیاء ورُسل علیہم السلام اور نبی آخر الزمان  کی دعوت ایک ہی ہے‘ یعنی عبادتِ ربّ کی دعوت.