موضوع کی مناسبت سے اب میں آپ کو ایک بڑی اہم حدیث (۲)سنا رہا ہوں‘ اس حدیث کی اہم بات یہ ہے کہ اس کو سن کر نبی اکرم کی محفل کا نقشہ کچھ دیر کے لیے ہماری آنکھوں کے سامنے آجائے گا. اس سے پہلے حدیث ِجبریل کے مطالعہ کے دوران ہم اس کا مشاہدہ کر چکے ہیں کہ اس کو پڑھ کر بھی حضوراکرم کی محفل کا نقشہ ہماری نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ نے ہمیں نماز پڑھائی . پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے: فَوَعَظْنَا مَوْعِظَۃً بَلِیْغَۃً ’’پھر آپؐ نے ایک ایسا وعظ فرمایا جو دلوں میں اتر جانے والا تھا‘‘. یعنی ایسا وعظ فرمایا کہ وہ ہمارے دلوں میں سرایت کر گیا. ذَرَفَتْ مِنْھَا الْعُیُوْنُ ’’(اس کی تاثیر اس درجے میں ہوئی کہ) اس سے ہماری آنکھیں بہہ پڑیں‘‘. یعنی ہماری آنکھوں سے آنسو نکل آئے. وَوَجِلَتْ مِنْھَا الْقُلُوْبُ ’’اور ہمارے دل دہل گئے‘‘. اس صورت حال میں ایک شخص نے عرض کیا: یَارَسُوْلَ (۱) سنن الترمذی‘ ابواب العلم‘ باب ما جاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع.وسنن ابی داوٗد‘ کتاب السنۃ‘ باب فی لزوم السنۃ. واللفظ لہ. اللّٰہِ! کَاَنَّ ھٰذِہٖ مَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْھَدُ اِلَـیْنَا ’’اے اللہ کے رسول !(ایسا محسوس ہو رہا ہے ) یہ تو گویا وداع کرنے والے کا وعظ ہے. پس آپؐ ہم سے کس چیز کاعہد لینا چاہتے ہیں؟‘‘ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسول اللہ کا آخری وعظ ہے ‘بالفاظِ دیگر یہ آپؐ کی وصیت ہے. اس درجے کا بلیغ اور مؤثر وعظ کہ سننے والوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا بہنے لگے اور دلوں پر لرزہ طاری ہو گیا. مسند احمد کی روایت میں ’’فَاَوْصِنَا‘‘ کے الفاظ ہیں.یعنی اس صحابیؓ نے کہا کہ اگر واقعی آپؐ کی اس دنیاسے رخصتی کا وقت قریب آ گیا ہے تو پھر ہمیں وصیت فرمایئے اور وہ باتیں بتایئے جن کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے.

اس سے آگے رسول اللہ کا فرمان شروع ہو رہا ہے . آپؐ نے فرمایا: 
اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ ’’میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں‘‘ آ گے بڑھنے سے پہلے تقویٰ کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھ لیجیے.اس حیاتِ دُنیوی میں معصیت سے بچنا‘ گناہوں سے بچنا‘ اللہ کی نافرمانی سے بچنا‘ حدودِشریعت تجاوز کرنے سے بچنا اور تمام خرافات ‘ رسومات و بدعات سے بچنا تقویٰ کہلاتا ہے. اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ انسان کو کسی گھنے جنگل میں سے گزرنا پڑے اور وہاں نہ کوئی پگڈنڈی ہو‘ نہ کوئی راستہ ہو ‘ بلکہ اونچی اونچی گھاس اور گھنے درخت ہوں. ظاہر بات ہے کہ ایسے میں انسان بہت چوکنا ہو کر پھونک پھونک کر قدم رکھے گاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہو یا کسی اور موذی جانور کا بل یا بھٹ ہو اور وہاں پائوں پڑ جائے. ایمیزون یا کانگو جیسے جنگلات میں تو درختوں سے لٹکے ہوئے سانپ بھی موجود ہوتے ہیں. اسی طرح پوری زندگی انسان کا معصیت ِالٰہی سے بچ کر چلناتقویٰ ہے ؎

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا!

تقویٰ کی وصیت کے بعد آگے رسول اللہ نے فرمایا:
 وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ ’’(تقویٰ کے ساتھ ساتھ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں) ’’سمع و طاعت یعنی سننے اور حکم ماننے کی‘‘ یعنی میں تواللہ کا رسول ہوں اورتم میری بات مان رہے ہو ‘لیکن میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہو گا اور نہ کوئی نبی ‘ میرے بعد تو خلفاء ہوں گے . اس لیے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ان کا حکم سننا اور ماننا اور اپنی جماعتی زندگی میں رخنے نہ پڑنے دینا. گویا: "United you stand, divided you fall" یعنی تم متحد رہو گے تو سربلند رہو گے اور جب تم تقسیم ہوجاؤگے تو تمہیں زوال آجائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا. حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب مسلمان شیعانِ عثمانؓ اور شیعانِ علیؓ کے نام سے دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے تو پھر مسلمانوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی. حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تو پورا عہد خلافت خانہ جنگی کی نذر ہو گیا اور ایک لاکھ کے قریب مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں ‘ تیروں اور نیزوں سے ختم ہو گئے. ظاہر بات ہے پھر زوال تو شروع ہو نا ہی تھا. آپ نے فرمایاتھا: وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَاِنْ عَبْدًا حَبَشِیًّا ’’(میں تمہیں وصیت کرتا ہوں خلیفہ اور امام کا) حکم سننے اور ماننے کی خواہ وہ ایک حبشی غلام ہی ہو‘‘. یعنی یہ نہ سمجھنا کہ تم برتر اور اعلیٰ ہو جبکہ وہ ادنیٰ اور کم تر ہے‘ بلکہ تمہارا خلیفہ یا امام حبشی غلام بھی ہو تو بھی تم پر اس کی اطاعت لازم ہے. 

آگے آپ نے فرمایا: 
فَاِنَّـہٗ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا ’’اس لیے کہ تم میں سے جو بھی میرے بعد زندہ رہے گا وہ کثرت کے ساتھ اختلاف دیکھے گا‘‘.اختلاف تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی ہوا‘ جیسے مانعین زکوٰۃ سے جہاد کے بارے میں اور لشکر اسامہ کی روانگی اور پھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی امارت کے حوالے سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اختلاف رائے ہو گیا تھا‘ لیکن پھر جو فیصلہ ہوا اسے سب نے تسلیم کیا. بہرحال ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ انسانی معاملات میں اختلاف نہ ہو‘ لیکن اگر اختلاف میں شدت آجائے اور اپنی بات منوانے پر سارا زور ہو جائے تو پھر زوال کی جانب سفر شروع ہوجاتا ہے. اگر ہر صاحب الرائے اپنی رائے پر اڑ جائے اور اسی کو اچھا سمجھے تو پھر جماعت کا نظم کیسے چلے گا.ایک حدیث میں ’’اِعْجَابُ کُلِّ ذِیْ رَأْیٍ بِرَأْیِــہٖ‘‘ کو ’’مہلکات‘‘ میں سے شدیدترین قرار دیا گیا ہے. ظاہر بات ہے کہ جماعت میں بعض اوقات اپنی رائے کو پس ِپشت ڈال کر امیر کی رائے کو ماننا پڑتا ہے. اسی لیے رسول اللہ نے اپنے اس وداعی وعظ میں تقویٰ اور سمع و طاعت کی خصوصی وصیت فرمائی. 

حدیث کا آخری ٹکڑا ہمارے آج کے موضوع ’’مذمت بدعت‘‘ سے متعلق ہے. آپؐ نے اپنی وصیت کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:
 فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الْمَھْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ  تَمَسَّکُوْا بِھَا وَعَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ ’’پس تم پر میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی پیروی لازم ہے‘ تو تم اس کو لازم پکڑو اور اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ کر رکھو ‘‘ کچلیوں کے دانت (نَواجِذ) کسی چیز کو پکڑنے کے لیے ہوتے ہیں. درندوں میں یہ کچلیاں (canines) اسی لیے لمبی ہوتی ہیں کہ انہوں نے زندہ جانور کے گوشت کو پھاڑنا ہوتا ہے اور کچلیاں ہی اس کام کے لیے کارگر ہوتی ہیں. آگے کے دانت چیر پھاڑ کرنے کا یہ کام نہیں کر سکتے.

آگے فرمایا: 
وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ‘ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ ‘ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ ’’اور دیکھو ہرگز نئے پیدا ہونے والے معاملات کی پیروی نہ کرنا‘ اس لیے کہ ہر نئی پیدا شدہ چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی کا باعث ہے.‘‘