بدعت کے اسباب کے حوالے سے یاد رکھیں کہ جب دین کا ہمہ گیر تصور سامنے نہیں رہتا تو بدعات پیدا ہوتی ہیں. دین کے ہمہ گیر تصور میں عبادات بھی ہیں اور معاملات بھی ‘ البتہ عبادات کی نسبت معاملات کی اہمیت زیادہ ہے. عبادات کی کوتاہی کو تو اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا ‘اس لیے کہ وہ تو اللہ کے لیے ہیں اور اللہ تعالیٰ تو بہت معاف فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے . لیکن اس کے برعکس معاملات کی کوتاہی کو اللہ تعالیٰ از خود معاف نہیں کرے گا ‘اس لیے کہ یہ انسانوں کا حق ہے. اگر آپ نے کسی کا حق مارا ہے تو اس کا حساب کتاب ہو کر رہے گا . یا تواس کے کچھ گناہ آپ کے حصے میں آئیں گے یا آپ کی کچھ نیکیاں اس کو دے دی جائیں گی جس کا آپ نے حق مارا ہے میں نے بتایا تھا کہ بدعت کا دوسرا سبب روحِ عبادت کا ختم ہو جانا ہے اور یہ نیک نیتی سے نہیں ‘ بلکہ جہالت اور غفلت کی بنا پر ہوتا ہے. 

اب بدعت کے تیسرے سبب کی طرف آتے ہیں اور وہ ہے اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جدوجہد یعنی جہاد فی سبیل اللہ سے کنارہ کشی اختیار کرنا. ہم ان نشستوں میں ’’حکمت ِدین کا عظیم خزانہ‘‘کے عنوان سے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مطالعہ کر چکے ہیں جس میں رسول اللہ نے جہاد فی سبیل اللہ کو دین اسلام کی بلند ترین چوٹی قرار دیا ہے . اس طویل حدیث میں وارد رسول اللہ کے یہ الفاظ ذہن میں تازہ کیجیے: 

اِنَّ رَأْسَ ھٰذَا الْاَمْرِ اَنْ تَشْھَدَ اَنْ لاَّ اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَـہٗ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُـہٗ ‘ وَاَنَّ قَوَامَ ھٰذَا الْاَمْرِ اِقَامُ الصَّلَاۃِ وَاِیْتَائُ الزَّکَاۃِ وَاَنَّ ذِرْوَۃُ السَّنَامِ مِنْہُ الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ 
(۱
’’یقینا دین کی جڑ یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ کوئی معبود نہیں سوائے تنہا اللہ تعالیٰ کے جس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد ( ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں. اور اس دین کو قائم رکھنے والی اور اس کی شیرازہ بندی کرنے والی چیز ہے نماز کو قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا. اور اس کی بلند ترین چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے.‘‘

اس حدیث میں رسول اللہ نے گویااسلام کو ایک درخت سے تشبیہہ دی ہے جس کی جڑ ہے اللہ تعالیٰ کے وحدہٗ لا شریک اور محمد کے آخری نبی ہونے کی گواہی دینا‘ اس کا تنا اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ ہے‘ جبکہ اس کی چوٹی ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے آپ کو معلوم ہے کہ اصل مطلوب تو درخت کی چوٹی ہوتی ہے جس پر پھل لگتا ہے. اس طرح اسلام کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے جو اللہ کے نظام کو غالب کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘ لیکن موجودہ دور میں کچھ لوگوں کی زندگی سے جہاد خارج ہو چکا ہے. انہیں تصور ہی نہیں کہ جہاد بھی کوئی فرض ہے. یہ لوگ تو باطل کے نظام میں بڑی آسودگی سے رہتے ہوئے اپنے کاروبارِ دنیا میں مگن ہیں. انہیں اس سے غرض ہی نہیں کہ ان کے ارد گردکیا ہو رہا ہے ‘ اللہ کے دین کی دھجیاں کس طرح بکھیری جا رہی ہیں‘ شریعت کو کیسے پامال کیا 
(۱) مسند احمد‘ح۲۱۸۳۰ جا رہا ہے‘ دین میں کیسی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں. لہٰذا جب اقامت ِدین کی جدوجہد خارج از بحث ہو گئی تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا تصورِ دین سکڑ کر رہ گیا.