کچھ لوگ وہ ہیں جو معاملات میں بھی دین کے احکام کو چھوڑے بیٹھے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ کاروبار میں سود لینا دینا پڑتا ہے‘ بینک سے سودی قرض لیے بغیر کاروبار نہیں چلتا‘ چھوٹے مکان کو بڑی حویلی میں تبدیل کرنے کے لیے بینک سے قرضہ لینا پڑتا ہے. اسی طرح باقی معاملات میں وعدہ خلافی ہو رہی ہے‘ جھوٹ بولا جا رہا ہے‘ دھوکہ دہی چل رہی ہے‘ ملاوٹ عروج پر ہے‘ وغیرہ وغیرہ.جب معاملات کے اندر بھی کمی ہو گئی تو اب سارا گاڑھا پن عبادات میں آ گیا.اس کے لیے میں نے آپ کو مثال دی تھی کہ اگر آپ ایک طشت میں پانی ڈالتے ہیں تو اس پانی کی اونچائی ایک انچ یا دو انچ ہو گی اور اگر اسی پانی کو آپ کسی جار یا بوتل میں ڈال دیں تو وہ ایک فٹ اونچا ہو جائے گا. اسی طرح دین کے معاملہ میں جب آپ نے اس کی بنیاد (base) کو تنگ کر دیا بایں طور کہ نہ ِاقامت دین کی ّجدوجہد ُرہی اور نہ معاملات کی احکامِ الٰہی کے مطابق پیروی رہی‘ تو پھر سارا زور عبادات پر چلا گیا. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر سال عمرہ اور حج ہو رہا ہے‘ لیکن اس کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کمائی حرام کی ہے یا حلال کی. کچھ لوگ تو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میں ہر سال حج کو جاتا ہوں اور میرا ّمصلیٰ تو مسجد حرام اور مسجد نبوی کی پہلی صف کے اندر مقرر ہے. یہ لوگ وہاں شرطوں ُکو رشوت دے کر اپنے ّمصلے پہلی صفوں میں رکھواتے ہیںاور سمجھتے ہیں کہ بڑی نیکی کا کام کر رہے ہیں.
اس حوالے سے آپ نبی آخر الزماں ﷺ کا طرزِ عمل دیکھیں کہ آپؐ نے عمرئہ قضا جو صلح حدیبیہ کے بعد ہوا‘ کے بعد باقی ساری زندگی کوئی عمرہ نہیں کیا‘ حالانکہ ۸ ہجری میں مکہ فتح ہو گیا اور آپؐ کو عرب کے بادشاہ کی حیثیت حاصل ہو گئی‘ اگر عمرہ کرناچاہتے تو کوئی روکنے والا نہیں تھا ‘لیکن آپؐ نے کوئی عمرہ نہیں کیا بلکہ آپؐ نے ساری جدوجہد دین کو غالب کرنے کے لیے کی اور اپنا سارا وقت اس کام میں لگایا. اسی طرح رسول اللہﷺ نے ایک حج کے علاوہ ساری زندگی کوئی حج نہیں کیا‘ حالانکہ رمضان المبارک ۸ ہجری کو مکہ فتح ہو چکا تھا ‘آپؐ چاہتے تو اس سال حج کر سکتے تھے لیکن آپؐ حج کیے بغیر مدینہ واپس آ گئے. پھر۹ہجری میں بھی آپؐ نے خود حج نہیں کیا بلکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر الحج مقرر کر کے حجاج کا قافلہ مدینہ سے روانہ کر دیا. آپؐ نے ساری زندگی میں صرف ۱۰ہجری کو حج کیا ‘جسے ہم ’’حجۃ الوداع‘‘ کہتے ہیں. رسول اللہﷺ کے اس طرزِ عمل سے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ دین میں مختلف عناصر کے درمیان کیا نسبت و تناسب (ratio proportion) ہے اور کون سی چیز کتنے درجے میں مطلوب ہے. لیکن جب اس چیز کا خیال نہیں رکھا جائے گااور سارا زور صرف عبادات تک محدود ہو جائے گا تو پھر عبادات کے معاملے میں اپنے اوپر سختی بھی ہو گی ‘مبالغہ بھی ہو گا ‘ یہاں تک کہ پھر بدعات ایجاد ہو جائیں گی.
اس ضمن میں آپ دیکھیں کہ ہمارے ہاں خاص طو رپر شب براء ت کے حوالے سے یہ تصور ہے کہ اس رات میں زیادہ سے زیادہ عبادت کا اہتمام کیا جائے اس کے علاوہ اس رات جو آتش بازی یا جشن اور ہنگامہ ہوتا ہے اس کا تو سرے سے دین سے کوئی سروکار ہے ہی نہیں عبادت کے لیے بھی خاص طور پر اس رات کو مقرر کر لیا گیا ہے‘ حالانکہ اس رات کی فضیلت کے حوالے سے کوئی قوی احادیث موجود نہیں ہیں. اسی طریقے سے شب معراج کا معاملہ ہے.یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ پوری توجہ اب عبادات پر مرتکز ہو چکی ہے اور سارا زور عبادات پر ہی صرف ہو رہا ہے.