موضوع کی مناسبت سے میں ایک اور حدیث آپ کو سنانا چاہتا ہوں تاکہ یہ مسئلہ اچھے طریقے سے واضح ہو جائے . حضرت بلال بن حارث المزنیhبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: 

اِنَّہٗ مَنْ اَحْیَا سُنَّۃً مِنْ سُنَّتِیْ قَدْ اُمِیْتَتْ بَعْدِیْ فَاِنَّ لَہٗ مِنَ الْاَجْرِ مِثْلُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ غَیْرِ اَنْ یَنْقُصَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْئًا 
(۲
’’یقیناجس شخص نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مردہ ہو چکی تھی تو اس شخص کو اتنا اجر ملتا رہے گا جتنا اس سنت پر عمل کرنے والے کو ملے گا اور عمل کرنے والے کے اجر میں کوئی کمی بھی نہیں ہو گی.‘‘

یعنی جس نے کسی مردہ سنت کو دوبارہ زندہ کیا تواس کے حساب میں تمام عمل کرنے والوں 
(۱) مسند احمد‘ کتاب مسند الشامیین‘ باب حدیث عضیف بن الحارثص‘ ح ۱۶۳۵۶.

(۲) سنن الترمذی‘ ابواب العلم‘ باب ما جاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدعۃ. 
جتنا ثواب کریڈٹ ہوتا رہے گا. اب دیکھئے ہم نے مسجد میں نکاح کی سنت کو ازسر ِنو زندہ کیا ہے‘ حالانکہ لوگ تو اسے ہتک اور توہین سمجھتے تھے. اسی طرح ہم نے جماعتی زندگی میں بیعت کی سنت کو دوبارہ زندہ کیا ہے . ہمارے ہاں تو مغرب سے آیا ہوا نظام مسلط کر دیا گیا کہ ووٹ کے ذریعے صدر کو منتخب کرو‘حالانکہ اسلام میں تو بیعت کا نظام ہے اور اسی کے ذریعے خلفاء کا چنائو ہوا ہے. تیرہ سو برس کی اسلامی تاریخ میں بیعت کے علاوہ کسی اور طریقہ کا نشان تک نہیں ہے. خلافت بھی بیعت کی بنیاد پر ہے اور ملوکیت بھی. بنواُمیہ اور بنوعباس کے خلفاء بھی بیعت لیتے تھے. پھر جب مغربی استعمار کا دورآ گیا تو اس کے خلاف جو بھی عسکری تحریکیں اُبھریں وہ بھی بیعت کی بنیاد پر بنی ہیں. چنانچہ ہندوستان میں سید احمد شہید کی تحریک شہیدینؒ ‘ لیبیا میں سنوسی تحریک ‘ سوڈان میں مہدی سوڈانی کی تحریک اور روس میں امام شامل کی تحریک‘ سب میں نظم کی بنیاد بیعت ہی تھی. عہد ِملوکیت میں جب مذہب و سیاست میں تقسیم نمایاں ہونے لگی تو ہمارے ہاں’’بیعت ِارشاد‘‘ وجود میں آئی. بہرحال یہ ایک اچھی بات تھی کہ لوگوں کو اللہ کا کلمہ سکھا دینا‘ کوئی اچھی بات بتا دینا یا نیکی کی تلقین کر دینا لیکن اجتماعی زندگی کے حوالے سے بیعت کی سنت تقریباً مردہ ہو چکی تھی اور یہ اللہ کا ہم پرخصوصی فضل ہے کہ اس نے ہمیں بیعت کے نظام کو ازسر نو زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی. 

حدیث کے اس حصے میں تو احیاءِ سنت کی فضیلت کا بیان تھا‘جبکہ روایت کے اگلے حصہ میں بدعت ایجاد کرنے والے کے انجامِ بد کا تذکرہ ہے.آگے آپ نے فرمایا: 

وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَۃَ ضَلَالَۃٍٍ لَا تُرْضِی اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ کَانَ عَلَیْہِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِھَا لَا یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ اَوْزَارِ النَّاسِ شَیْئًا 
٭ ٭ اس مضمون سے ملتی جلتی ایک روایت امام مسلم نے بھی نقل کی ہے. حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ایک موقع پر فرمایا: 

مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہٗ کُتِبَ لَہٗ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَا یَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْئٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہٗ کُتِبَ عَلَیْہِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَا یَنْقُصُ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیْئٌ (صحیح مسلم‘ کتاب العلم‘ باب من سن سنۃ حسنۃ او سیئۃ …) 
’’جس نے اسلام میں کسی نیک کام کو جاری کیا اور بعد میں لوگوں نے اس پر عمل بھی کیا تو اس شخص کو ہر عمل کرنے والے کے بقدر ثواب ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے بھی کوئی کمی نہیں کی جائے گی. اور جس نے اسلام میں کسی برے کام کو جاری کیا اور بعد میں لوگوں نے وہ کام کیا بھی تو اس شخص پر ہر عمل کرنے والے کے بوجھ (گناہ) کے بقدر بوجھ ہو گا اور کرنے والوں کے بوجھ میں سے بھی کچھ کمی نہیں کی جائے گی.‘‘ (اضافہ از مرتب) ’’اور جس شخص نے کوئی گمراہی والی بدعت ایجاد کی جو اللہ اور اُس کے رسول کو ناپسند ہوتو اس شخص کو بھی اتنا ہی گناہ ملے گا جتنا اس بدعت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا (یعنی جتنے لوگ بھی اس بدعت کو کریں گے اس کے برابر گناہ بدعت ایجاد کرنے والے کے حساب میں درج ہوتا رہے گا )اور اس بدعت پر عمل کرنے والے لوگوں کے اپنے بوجھ میں سے کوئی کمی نہیں ہو گی.‘‘