اس ضمن میں ایک مرسل حدیث ملاحظہ ہوجسے امام بیہقیؒ نے اپنی کتاب’’ شعب الایمان‘‘ میں نقل کیا ہے: 

مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَۃ فَقَدْ اَعَانَ عَلٰی ھَدْمِ الْاِسْلَامِ 
(۱
’’جس شخص نے کسی بدعتی کی توقیر کی تو اس نے اسلام کو منہدم کرنے میں اس کی مدد کی.‘‘ 

اسی طرح رسول اللہ نے کسی فاسق کی مدح سرائی کو اللہ کے غضب کا باعث قرار دیا. امام بیہقی ؒ ’’شعب الایمان‘‘میں حضرت انس ص سے مروی حدیث نقل کرتے ہیں: 

اِذَا مُدِحَ الْفَاسِقُ غَضَبَ الرَّبُّ تَعَالٰی وَاھْتَزَّلَہُ الْعَرْشُ 
(۲
’’جب کسی فاسق کی مدح سرائی کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس درجے غضب ناک ہوتا ہے کہ اس کا عرش کانپ اٹھتا ہے.‘‘

بدعات ‘ رسومات اور نئی نئی ایجادات اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے والی ہیں‘ 
(۱) مشکاۃ المصابیح‘ کتاب الایمان‘ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘ الفصل الثالث.

(۲) مشکاۃ المصابیح‘ کتاب الآداب‘ باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم‘ الفصل الثالث. 
لہٰذا ہمیں ایک اصول طے کر لینا چاہیے کہ جو چیز قرآن وسنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے وہ سر آنکھوں پر(مثلاً شادی بیاہ میں دعوت ولیمہ )اور جو ثابت نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کہیں باہر سے آئی ہوئی چیز ہے‘ اس لیے اس کو چھوڑ دیا جائے اور اس پر عمل کر کے اللہ کے غضب کو دعوت نہ دی جائے. مثلاً جہیز کا کوئی تصور سرے سے اسلام میں ہے ہی نہیں‘ بلکہ اس کا ایک ہندوانہ پس منظر ہے. ہندوؤں میں لڑکی کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا‘اس لیے جب وہ اپنی لڑکی کو گھر سے رخصت کرتے ہیں تو کچھ دان دہیج دے کر رخصت کرتے ہیں کہ جاؤ اب تمہارا اس گھر سے کوئی سروکار نہیں ‘ ہماری وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے. اس کے برعکس اسلام میں تو لڑکی باقاعدہ وارث ہے. لیکن ہمارے معاشرے میں بھی ہندوؤں کے دیکھا دیکھی بیٹی کو جہیز دے کر عام طور پروراثت سے فارغ کر دیا جاتاہے. یہ ایک بڑی مثال ہے اس بات کی کہ جہاں بدعت آئی وہاں سنت غائب ہو گئی‘ یعنی جہیز دے دیا اور وراثت کے قرآنی حکم کو پس پشت ڈال دیا‘جس کے بارے میں قرآن میں الفاظ آئے ہیں:َ … مِمَّا قَلَّ مِنۡہُ اَوۡ کَثُرَ ؕ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا ﴿۷﴾ یعنی ترکہ خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ اسے وارثوں میں تقسیم کرو.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کیا گیا حصہ ہے.