مذمت بدعت کے حوالے سے میں نے کئی احادیث پچھلے خطابِ جمعہ اور آج کے خطاب میں بیان کی ہیں. ان احادیث کی روشنی میں ہمیں بدعات اور محدثات الامور سے بچنے کی پوری پوری کوشش کرنی چاہیے. چیزوں کو پرکھنے کے لیے میں نے آپ کو ایک فارمولا بتا دیا کہ پہلے یہ تلاش کیجیے کہ یہ کام قرآن و سنت سے ثابت ہے یا نہیں. اگر ثابت ہے تو پھر یہ دیکھیں کہ کس درجے میں مطلوب ہے‘دین میں یہ کس نسبت وتناسب کے ساتھ ثابت ہے. اگر آپ ان دونوں باتوں کو پیش نظر رکھیں گے تو ان شاء اللہ آپ بدعت سے بچ جائیں گے.یاد رکھیں کہ کینسر بھی ہمارے جسم کا ایک ٹشو ہی ہوتا ہے جوغیر متناسب طور پر (out of proportion) بڑھنا شرو ع کر دیتا ہے اور اس طرح وہ ہمار ے جسم کے بیرونی سطح پر گلٹی کی شکل میں ظاہر ہوجاتا ہے یا پھر جسم کے اندر رہتے ہوئے جسم کے باقی ٹشوز کو کھاتا رہتا ہے اور پھر بالآخر انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے . بالکل یہی معاملہ ہمارے دین کا ہے. اگر آپ دین کے کسی معاملہ پر غیر متناسب طور پر عمل کریں گے تو یہ دین کا کینسر بن جائے گا. لہٰذا سنت سے ثابت شدہ چیزوں پر بھی توازن اور اعتدال کے ساتھ عمل کرنا چاہیے . سنت کی پیروی صرف اس کا نام نہیں ہے کہ جو چیز احادیث سے ثابت ہے بس اس پر عمل کر لیا‘ بلکہ اس کے ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس پر حضور اکرم کا کس قدر عمل تھا. اگر آپ اس کے مطابق عمل کریں گے تو پھر سنت کاصحیح حق ادا ہو گا. 

حقیقت یہ ہے کہ وہ کام جس پر رسول اللہ نے اپنی زندگی گزار دی یعنی اقامت ِدین کی جدوجہد اس کو تو ہم نے اپنے ذہنوں سے خارج کررکھا ہے.یہ رسول اللہ کی سب سے بڑی سنت ہے ‘لیکن ہم نہ تو اس کی طرف توجہ کرتے ہیں اور نہ باقی معاملات پر دین کے مطابق عمل پیرا ہوتے ہیں. معاملات میں تو ہم حیلوں بہانوں سے ہیرا پھیری کرتے ہیں. سود کے حوالے سے کہہ ڈالتے ہیں کہ کیا کریں اس کے بغیر کاروبار چلتا ہی نہیں ہے. وکلاء حضرات جھوٹ بولنے کی توجیہہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں قانون ایسا ہے کہ صحیح سے صحیح مقدمہ بھی جھوٹ کے بغیر ثابت نہیںہو سکتا. سرکاری ملازم رشوت لینے کا یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمیں جو تنخواہ ملتی ہے اس میں گزارا نہیں ہوتا. اس حوالے سے ایک دفعہ مجھے بڑا حیرت ناک تجربہ ہواتھا. واپڈا ہاؤس کے آڈیٹوریم میں سیرت کا ایک جلسہ تھا اور میں نے اس میں تقریر کرنی تھی.مجھے لینے کے لیے ایک گاڑی آئی جس کا ڈرائیور دیکھنے میں بہت چست تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ سمجھ دار بھی ہے اور چالاک بھی. راستے میں‘ میں پوچھ بیٹھا کہ سرکاری پٹرول تو نہیں بیچتے؟ اس نے دھڑلے ّسے کہا :بیچتے ہیں. میں نے پوچھا : بتا کر بیچتے ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ میں ان سے بھی کہتا ہوں کہ جو تنخواہ تم مجھے دیتے ہو اس میں مجھے دو کمروں کا مکان کرائے پر لے دوتو میں یہ پٹرول بیچنا چھوڑ دوں گا یہ معاملہ ہے 
ہمارے ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں ہمارے نظام کا بھی قصور ہے جس کو بدلنے کا نام اقامت دین کی جدوجہد ہے اور وہ ہم نے کرنی نہیں ہے. اس کے بجائے اس نظام کے اندر رہتے ہوئے بے ایمانیاں ‘ سود خوری‘ جھوٹ ‘ ملاوٹ ‘دھوکہ دہی اور رشوت وغیرہ ‘یہ سب کرتے رہنا ہے. اصل بات وہی ہے کہ جب دین کے تصور میں محدودیت پیدا ہو جائے اور روح کے بجائے صرف ظاہری شکل پیش نظر رہ جائے تو پھر معاشرہ بدعات اور محدثات کا گھنا جنگل بن جاتا ہے .اس طرح سنت اور نیکی کے کام ختم ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ برائیاں جنم لے لیتی ہیں.

آج کے موضوع کو سمیٹتے ہوئے ایک بہت پیاری حدیث ملاحظہ ہو. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: 
کُلُّ اُمَّتِیْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ اِلاَّ مَنْ اَبٰی ’’میری اُمت پوری کی پوری جنت میں جائے گی سوائے اس شخص کے جو خود ہی انکار کر دے‘‘ کسی بھی بات کو سمجھانے کے مختلف انداز ہو سکتے ہیں لیکن یہ آپ کا متوجہ کرنے کے حوالے سے بہت پیارا انداز ہے کہ میری تمام اُمت جنت میں جائے گی سوائے اس شخص سے جو خود ہی جنت میں جانے سے انکار کردے.یہ سنتے ہی سب صحابہ پوری طرح متوجہ ہوگئے او ر حیران ہوتے ہوئے پوچھا یارسول اللہ! ایسا کون بدبخت ہو گا جو جنت میں جانے سے خود ہی انکار کرے گا . آپ نے فرمایا: مَنْ اَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ اَبٰی (۱’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی گویا اس نے (جنت میں جانے سے خود ہی) انکار کر دیا.‘‘

اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اس حدیث کے مثبت پہلوپر عمل کرنے‘مردہ سنتوں کو زندہ کرنے اور بدعات کی پیروی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین یا ربّ العالمین! 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘ باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰہ  .