۲۱/ ستمبر ۲۰۰۷ء کا خطابِ جمعہ 
خطبہ ٔمسنونہ کے بعد: 

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۸۸﴾٪ 
(البقرۃ) 
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ 

اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ‘ لاَ یَقْبَلُ اِلاَّ طَـیِّبًا‘ وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ‘ فَقَالَ
یٰۤاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ (المؤمنون:۵۱وَقَالَ : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ (البقرۃ:۱۷۲) ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ ‘ اَشْعَثَ اَغْبَرَ ‘ یَمُدُّ یَدَیْہِ اِلَی السَّمَائِ : یَا رَبِّ! یَارَبِّ! وَمَطْعَمُہٗ حَرَامٌ‘ وَمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ‘ وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ‘ وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ ‘ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ(۱

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: 

’’بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاک چیز ہی قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو دیا ہے. چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اے میرے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھے عمل کرو‘‘. اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے فرمایاہے: ’’اے ایمان والو! ہم نے جو پاکیزہ چیزیں 
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الزکاۃ‘ باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا.تمہیں دی ہیں ان میں سے کھاؤ‘‘. اس کے بعد آپ نے اس شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کرے ‘اس کے بال پراگندہ اور جسم غبار آلود ہو‘ وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر یارب! یارب! کہے‘ مگر اس کی حالت یہ ہو کہ اس کا کھانا‘ پینا ‘ لباس اور غذا ہر چیز حرام ہو تو اس کی دعا کیونکر قبول کی جائے!‘‘

معزز سامعین کرام!
آج ہمارا ’’قران السعدین‘‘ ہو رہا ہے‘بایں معنی کہ دو مضمون جڑ رہے ہیں. رمضان اور روزے سے متعلق ایک اہم بات جو سورۃ البقرۃ کے ۲۳ویں رکوع کی آخری آیت میں بیان ہوئی ہے ‘ آج ہمارے زیر درس ہے اور اربعین نووی کی حدیث ۱۰جو اسی موضوع سے متعلق ہے‘ وہ بھی آج ہمارے زیر مطالعہ آئے گی.

اس حوالے سے یہ بات ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ ارکانِ اسلام میں سے تیسرا رکن ’’صوم‘‘ اس اعتبار سے بہت ہی نمایاں ہے کہ اس کے جملہ احکام نہایت اختصار کے ساتھ سورۃ البقرۃ کی چھ مسلسل آیات (۱۸۳ تا ۱۸۸) میں موجود ہیں. ان آیات میں روزے کا ابتدائی حکم بھی آ گیا‘ تکمیلی احکام بھی آ گئے‘ صوم کی حکمت بھی آ گئی ‘ صوم کے لیے رمضان المبارک کے انتخاب کا سبب بھی آ گیا‘ اور رمضان المبارک کے حوالے سے قیام اللیل کی جو اضافی عبادت ہے اس کا ذکر بھی ان آیات میں ہو گیا. پھر ان سب کا مجموعی حاصل اور آخری منزل بھی انہی آیات میں بیان ہو گئی. چنانچہ نوٹ کیجیے کہ پہلی آیت ختم ہوتی ہے : 
’’لَعَلَّـکُمْ تَـتَّقُوْنَ ‘‘ پر‘یعنی تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جیسے کہ تم سے پہلی اُمتوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے. تیسری آیت ختم ہوتی ہے: ’’لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ‘‘ پر تاکہ تمہارے اندر قرآن مجید کی عظمت کا صحیح ادراک پیدا ہو جائے اور پھر تم اس کا شکر ادا کرسکو جیسے کہ اس کے شکر کا حق ہے.چوتھی آیت ختم ہوتی ہے : ’’ لَعَلَّـھُمْ یَرْشُدُوْنَ‘‘ پر تاکہ وہ ہدایت کی بلند ترین منزل ’’رشد‘‘ پر فائز ہو جائیں. پانچویں آیت پھر لفظ تقویٰ ’’لَعَلَّـھُمْ یَـتَّـقُوْنَ ‘‘ پر ختم ہوتی ہے. یعنی یہ سارے احکام ہم نے تفصیل سے اس لیے بیان کیے ہیں تاکہ لوگ تقویٰ اختیار کر سکیں.