اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ تقویٰ کا معیار اور اس کی کسوٹی کیا ہے؟ یہ لفظ ہمارے ہاں عام استعمال ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص بڑا متقی ہے ‘ فلاں بڑا پرہیزگار ہے .اس لحاظ سے تقویٰ کا کوئی نہ کوئی تصور ہر شخص اپنے ذہن میں رکھتا ہے عام طور پر صورت یہ ہے کہ تقویٰ کو صرف عبادات سے متعلق مانا جاتا ہے اور کسی بھی شخص کے متقی ہونے کا فیصلہ اس اعتبار سے کیا جاتا ہے کہ وہ نماز کتنی پابندی اور کتنے خشوع وخضوع سے پڑھتا ہے‘ روزہ کس اہتمام سے رکھتا ہے ‘ زکوٰۃ کے علاوہ اللہ کی راہ میں کتنا کچھ خرچ کرتا ہے اور حج عمرے کتنے کرتا ہے. یہ تمام چیزیں گویا تقویٰ کے معیارات ہیں. بعض لوگ عبادات کے ساتھ ساتھ انسان کے ظاہر کو بھی تقویٰ کا معیار سمجھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اُس کا لباس ‘وضع قطع اور رہن سہن وغیرہ شریعت کے اصولوں کے کتنے مطابق ہے اور اس سے اتباعِ رسول کا کتنا اظہار ہورہا ہے یہ ساری چیزیں تقویٰ کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں موجود ہیں.لیکن اگر تقویٰ کا پیمانہ یہی مانا جائے تو پھرسورۃ البقرۃ کی آیت ۱۸۸ کا بظاہر صوم اور رمضان سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا. اس لیے کہ اس آیت میں ایک علیحدہ مضمون بیان ہوا ہے . فرمایا: وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ ’’اور تم ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے مت کھاؤ!‘‘

اس حوالے سے یہ نوٹ کرلیں کہ اس آیت میں تقویٰ کا معیار ‘اس کی کسوٹی اور اس کا پیمانہ بیان کیا گیاہے. یعنی روزہ اس لیے فرض کیا گیا ہے اور یہ سارے احکام تمہیں اس لیے دیے جا رہے ہیں تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو جائے اور تقویٰ کا لٹمس ٹیسٹ اور معیار ہے: ’’اَکل حلال‘‘. اگریہ نہیں ہے تو پھرکوئی نیکی نیکی نہیں ہے.ظاہر بات ہے کہ دنیا میں ہم زندگی گزارتے ہیں تو ایک دوسرے سے لین دین ہوتا ہے. مثلاً آپ نے کچھ پیسوں کے عوض کوئی چیز خریدی اور بیچنے والے نے اگر اس خرید و فروخت میں کسی بھی قسم کا دھوکہ کیا یا اس شے کا کوئی نقص چھپایا تو جو پیسے اس چیز کے عوض آپ اُسے دے رہے ہیں وہ اس کے لیے حرام ہیں. ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرم مدینہ کی ایک 
منڈی میں تشریف لے گئے تو وہاں گندم کا ایک ڈھیر دیکھا. آپ نے اس ڈھیر کے اندر اپنا دست مبارک داخل کیا تو معلوم ہوا کہ نیچے نم آلود گندم ہے جبکہ اوپر کی گندم خشک ہے. اس پر نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا (۱یعنی جس نے اس طرح کی دھوکہ بازی کی وہ ہم میں سے نہیں ہے. گویا یہ تو سراسر دھوکہ ہے اور کسی شے کا نقص چھپا کر اسے بیچنے سے ایسی کمائی حرام ہو جاتی ہے. اس لیے یہ نوٹ کر لیں کہ تقویٰ کا لٹمس ٹیسٹ معاملات کے اندر ہے ‘ورنہ داڑھیوں کا لمبا ہونا اور پائینچوں کا ٹخنوں یا آدھی پنڈلی تک اونچا ہونا تقویٰ کا معیار نہیں ہے. تقویٰ کا اصل معیار رزقِ ِحلال اوراَکل حلال ہے . اگر یہ نہیں ہے تو پھرنمازوں کے ڈھیر اور نوافل کے انبار بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے. اصل یہی ہے کہ آپ جو کھا رہے ہیں وہ اصلاً حلال بھی ہو اور پھر جائز و حلال طریقے ہی سے حاصل کیا گیا ہو. اب اگر ایک شخص سور کا گوشت کھا رہا ہے تو آپ سب کہیں گے چھی چھی‘ حرام کھا رہا ہے‘ لیکن ایک شخص کھا تو بکری کا گوشت رہا ہے مگر اُس نے وہ گوشتکسی کی جیب کاٹ کر خریدا ہے تو یہ حلال گوشت چونکہ اس نے حرام طریقے سے کمایا ہے تو یہ بھی حرام ہے. اس طریقے سے حرام کا سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے. 

اس حوالے سے آخری بات جو میں کہا کرتا ہوں ‘ذرا کان کھول کر سن لیجیے کہ ایک ایسے ماحول میںجس میں دین حق غالب نہ ہو بلکہ باطل کا نظام رائج ہو ‘ اس میں سانس لینا بھی حرام ہے. اِلا یہ کہ سانس لینے یا غذا کھانے سے جو قوت پیدا ہوتی ہے اگر اس کا اکثر و بیشتر اس نظامِ باطل کو ختم کر کے نظامِ حق کو قائم کرنے کی جدوجہد میں خرچ ہو رہا ہے تو جائز ہے‘ ورنہ سانس لینا بھی حرام ہے ؎

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا!

بہرحال بیع و شراء میں دھوکہ دینا ‘ فریب کرنا‘ اپنے مال کے نقص کو چھپانا حرام ہے اور ان ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہے. 
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب قول النبیمن غشنا فلیس منا. وسنن الترمذی‘ ابواب البیوع‘ باب فی کراھیۃ الغش فی البیوع.