آیت کے اگلے حصہ میں اکل حرام کی ایک خاص صورت بیان کی گئی ہے. فرمایا: وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ ’’تم اپنے مال کو ذریعہ نہ بناؤ حکام تک پہنچنے کا تاکہ تم لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ہڑپ کر سکو گناہ کے ساتھ‘‘’’دَلو‘‘ کہتے ہیں ڈول کو اور ڈول کنوئیں میں اتارا جاتا ہے پانی کھینچنے کے لیے. اسی طرح کوئی شخص اپنا مال کسی سرکاری افسر کو اس لیے پیش کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے کسی اور کا مال ہڑپ کر سکے. اسے عام اصطلاح میں ’’رشوت‘‘ کہا جاتا ہے . تو جس طرح پانی تک پہنچنے کے لیے ڈول کو ذریعہ بنایا جاتا ہے اسی طریقے سے لوگوں کی حق تلفی کرنے یا ان کا مال غلط طریقے پر ہڑپ کرنے کے لیے تم نے اپنے مال کو ڈول بنایا حکام تک پہنچنے کا‘ تاکہ اس کے ذریعے سے ان کے ہاتھ میں موجود اختیارات کو تم اپنے حق میں استعمال کر سکو. اسی کا نام رشوت ہے اور ایک حدیث میں صاف طور پرآیا ہے : لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  الرَّاشِیَ وَالْمُرْتَشِیَ فِی الْحُکْمِ (۱یعنی رسول اللہ نے مقدمات میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت فرمائی ہے. رشوت کے ضمن میں ایک حدیث تو بہت مشہور ہے:

اَلرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ فِی النَّارِ 
(۲
’’رشوت دینے والا اور رشوت کھانے والا دونوں جہنمی ہیں.‘‘

ہم ’’راشی‘‘ کا لفظ رشوت خور یعنی رشوت لینے والے کے لیے بولتے ہیں ‘جبکہ عربی زبان اور حدیث کی اصطلاح میں ’’راشی‘‘ رشوت دینے والے کو کہتے ہیں. اگر آپ گہرائی میں تجزیہ 
(analysis) کریں تو معلوم ہو گا کہ رشوت کی اصل بنیاد رشوت دینا ہے. وہ اس طرح کہ لوگ غلط کام کرانے کے لیے حکام اور سرکاری افسران کو رشوت کی عادت ڈالتے ہیں اوراپنا کام نکلوانے کے لیے اُن کی مٹھیاں گرم کرتے ہیں. جب وہ (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الاحکام‘ باب ما جاء فی الراشی والمرتشی فی الحکم.

(۲) الترغیب والترھیب للمنذری ۳/۱۹۴. ومجمع الزوائد للھیثمی ۴/۲۰۲‘ رجالہ ثقات. 
رشوت کے عادی ہو جاتے ہیں تو پھر اس کے بغیر وہ کوئی کام کرتے ہی نہیں ہیںاور ایک آسان سے کام کو اتنا پیچیدہ بنا دیتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے.

عام طو رپر لوگ اپنے غلط کام کرانے یاکسی کا حق تلف کرنے کے لیے اپنے مال کو حکام تک پہنچنے کا ذریعہ بنا رہے ہوتے ہیں تاکہ اُن کے اختیارات کے ناجائز استعمال سے کچھ ناجائز آمدنی یا کچھ غیر قانونی مفادات حاصل کر سکیں‘یا سرکاری محصولات (ٹیکس‘ انکم ٹیکس وغیرہ) میں کمی کرا سکیں. آپ نے دیکھا ہو گا اور آپ میں سے بہت سوں کو تو تجربہ بھی ہوا ہو گا کہ جب نئے نوجوان افسر کسی جگہ چارج لیتے ہیں تو اس وقت ان میں کچھ اصول و قواعد کی پابندی نظر آتی ہے اور ان کی نظر میں دیانت داری اور قوم کے ساتھ خلوص و اخلاص بھی کوئی شے ہوتی ہے ‘لیکن اس نظام میں پہلے سے موجود خرانٹ قسم کے افسران اور کرپٹ اہلکار ان نوجوان افسروں کو پٹی پڑھاتے ہیں کہ تم تو ایک غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے ہو اوراس طرح تو ترقی کے راستے تم پر بند ہو جائیں گے‘ تم آگے بڑھ نہیں سکو گے . جب تک تم اپنے سے اوپر والے حکام کو راضی نہیں رکھو گے تمہاری ترقی کیسے ہو گی؟ دوسرے یہ کہ وہاں موجود حرام خور لوگ انہیں رشوت کے ایسے ایسے طریقے روشناس کراتے ہیں کہ جس سے ان کو رشوت کا چسکا پڑجاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی نہیں چھوڑ سکتے ؏ ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی!‘‘ 

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا 

آیت کے آخر میں فرمایا گیا: 
وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۸۸﴾٪ ’’اور تم (یہ سب) جانتے بوجھتے کر رہے ہو‘‘.
 یعنی اگر جان بوجھ کر یہ سب کرو گے تو اللہ کے غضب اور اس کے عذاب کے مستحق ہو جائو گے. البتہ اگر کبھی غلط فہمی اور لاعلمی کی بنا پر ایسا ہو جائے تو وہ قابل گرفت نہیں ہے ‘مثلاً کوئی شخص غلط فہمی میں نادانستہ طور پر کوئی لقمہ ٔحرام کھا لے یا کوئی اسے دھوکہ سے سور کا گوشت بکری کا گوشت کہہ کر کھلا دے تو ان صورتوں میں وہ مجرم نہیں ہو گا. اس لیے کہ غلط فہمی اور لاعلمی میں اگر کوئی حرکت ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاںقابل مؤاخذہ نہیں اس حوالے سے سورۃ البقرۃ کی آخری آیت بہت اہمیت کی حامل ہے جس میں یہ دعا موجود ہے : رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ ’’اے ہمارے رب ! ہم سے مواخذہ نہ فرما اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہو جائے ‘‘ لیکن جانتے بوجھتے اگر حرام خوری کا کوئی بھی کام کرو گے تو یہ جان لو کہ تم سے تقویٰ کی نفی ہوجائے گی اور تم عذابِ الٰہی کے مستحق ہو گے.