اب ’’اربعین ِنووی‘‘ کی اس حدیث کی طرف آتے ہیں جو موضوع کی مناسبت سے میں نے شروع میں بیان کی تھی.اس حدیث میں اکل حلال کی اہمیت اور اس کا مقام و مرتبہ بیان ہو رہا ہے. اس کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ مسلم شریف کی روایت ہے. رسول اللہ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ‘ لاَ یَقْبَلُ اِلاَّ طَـیِّبًا ’’بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاک چیز ہی قبول کرتا ہے‘‘ چنانچہ اگر کسی نے عید الاضحی کے موقع پر بیس‘ تیس ہزار کا دنبہ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا ‘لیکن وہ تھاحرام کی کمائی سے‘ تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ‘اس لیے کہ اللہ خود بھی پاک ہے اور وہ سوائے پاک اور حلال چیز کے اور کسی چیز کو قبول نہیں کرتا . ارشادِ باری تعالیٰ ہے: لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ؕ (الحج:۳۷’’ہرگز نہیں پہنچتا اللہ تک ان قربانیوں کا گوشت اور نہ خون لیکن پہنچتا ہے اُس تک تمہارا تقویٰ‘‘ اوراگر کسی نے اپنی جائز کمائی سے کوئی چھوٹا سا جانور خرید کر بھی اللہ کی راہ میں ذبح کیا تو اس کے ایک ایک بال پر بھی اجر ہے. اس حوا لے سے ایک بہت پیاری حدیث ہے.

حضرت زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  کے بعض اصحاب نے عرض کیا:یا رسول اللہ!ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟آپؐ نے فرمایا:’’یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے‘‘. صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ!ہمارے لیے ان قربانیوں کا کیا اجر ہے؟آپؐ نے فرمایا:’’قربانی کے جانور کے ہر ہربال کے عوض نیکی ہے‘‘.صحابہ نے پوچھا:یارسول اللہ! کیا اُون کا بھی یہی حساب ہے؟ آپؐ نے فرمایا:’’ہاںاون (والے جانور )کے ہر بال کے عوض نیکی ہے.‘‘ 
(۱(۱) سنن ابن ماجہ‘کتاب الاضاحی‘ باب ثواب الاضحیۃ.