آگے آپ نے فرمایا: یَمُدُّ یَدَیْہِ اِلَی السَّمَائِ ‘ یَا رَبِّ! یَارَبِّ’’وہ شخص اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے: ’’اے میرے پروردگار! اے میرے پروردگار!‘‘ اس حوالے سے میرے سامنے جبل رحمت کا نقشہ آتا ہے . جبل رحمت ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس پر جانے کے لیے لوگ بڑی محنت کرتے ہیںاور بہت مشقتیں اٹھاتے ہیں فرض کیجیے کہ وہ شخص اس کی سب سے اونچی چوٹی پر پہنچ کر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کھڑا یاربّ یاربّ پکار رہا ہے یا مسجد الحرام میں بیت اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے پروردگار کو پکار رہا ہے . وَمَطْعَمُہٗ حَرَامٌ‘ وَمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ‘ وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ‘ وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ ’’اورحال یہ ہے کہ اس کا کھانا ‘ پینا‘ لباس اور غذا ہر چیز حرام ہے‘‘ . فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ’’تو اس شخص کی دعا کیونکر قبول ہو گی؟‘‘

حدیث کے اس آخری حصے کا ماحصل یہ ہے کہ قبولیت ِدعا کے اندر سب سے بڑی رکاوٹ اکل حرام ہے. ایسی صورت میں آپ دعا کرتے رہیں‘ اللہ تعالیٰ سنے گا ہی نہیں. اس اعتبار سے آپ خود ہی اپنی دُعا کی قبولیت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں. آپ کو چاہیے کہ اپنی آمدن کا جائزہ لیںکہ اس میں کوئی حرام تو شامل نہیں ہے‘ کوئی ناجائز طریقہ تو شامل نہیں ہے‘ کوئی براہِ راست سود کا عنصر تو نہیں ہے. جبکہ بالواسطہ سود سے تو نہ میں بچا ہوا ہوں اور نہ آپ بچے ہوئے ہیں‘کیونکہ ہمارا پورا معاشی نظام سود پر مبنی ہے .گندم کا ایک دانہ جو ہم کھاتے ہیں ‘اس میں بھی سود شامل ہے. اس
لیے کہ سودی قرضے پر ہی گندم کا بیج خریدا گیا‘ ٹریکٹر خریدا گیا‘ کھاد خریدی گئی ‘الغرض ہر چیز سود پر لی گئی ہے . اس طرح اس کے ایک ایک دانے میں سودشامل ہے اور وہ سود لامحالہ میرے اندر بھی جا رہا ہے ‘اس لیے کہ اس کے بغیر چارہ ہی نہیں ہے.

رسول اللہ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اگر کوئی شخص سود سے بچ بھی جائے گا تو سود کے غبار اور دھوئیں سے نہیں بچ سکے گا. فرض کیجیے کہ فضا کے اندر گرد و غبار معلق 
(dust suspension) ہے تو آپ لامحالہ اسے inhale کریں گے. ظاہر بات ہے کہ سانس تو آپ کو لینا ہے‘ سانس لینا تونہیں چھوڑ سکتے ‘ورنہ تو آپ مر جائیں گے. اب جب سانس لیں گے تو اس کے ساتھ گرد و غبار لازماً اندر جائے گا‘ آپ کے پاس اس کو روکنے کا کوئی ذریعہ نہیں. یا یوں سمجھ لیں کہ ہوٹل کی چودھویں منزل پر آگ لگ گئی ہے اور کمروں کے اندر دھواں بھر گیا ہے. اب آپ کہاں جائیں گے ؟ چودھویں منزل سے چھلانگ لگائیں گے توآپ کی ہڈیاں چورا چورا ہو جائیں گی. اس حال میں بھی آپ سانس لینے پر مجبور ہیں اور وہ دھواں سانسوں کے ذریعے آپ کے پھیپھڑوں میں پہنچ کر رہے گا. بالکل اسی طرح بالواسطہ (indirect) سود سے تو آج کوئی بھی بچا ہوا نہیں ہے‘ البتہ بلاواسطہ (direct) سود آپ کی اپنی مرضی سے ہے‘ اس لیے کہ آپ نے اپنا کاروبار بڑھانے کے لیے برضا و رغبت سودی قرضہ لیا ہے . میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ لوگوں کو چاہیے کہ جتنی جمع پونجی ہے اس سے کاروبار کر لیں .اگر بہت تھوڑی پونجی ہے توپھلوں کی چھابڑی یاکوئی ریڑھی لگا لیں‘ اس سے زیادہ پونجی ہے تو کوئی کھوکھا یابڑی دوکان بنا لیں‘ اور اگر اس سے بھی زیادہ ہے تو پھر امپورٹ ایکسپورٹ کرلیں‘ لیکن رہیں اپنی چادرکے اندر ہی اور اس سے باہر پاؤں نہ پھیلائیں.اسی طرح اگر آپ کے پاس چھوٹا سا مکان ہے تو اُسے بڑی عالی شان کوٹھی میں تبدیل کرنے کے لیے سودی قرضہ لینے کی کیا ضرورتہے ؟ زندگی گزارنے کے لیے سر کے اوپر چھت میسر ہو‘ اتنا ہی کافی ہے . آپ نے یہاں ہمیشہ تو نہیں رہنا. ایک وقت آئے گا جب آپ کویہاں سے نکل کر قبر کے اندر جانا پڑے گا.اس حوالے سے یہ یادرکھیں کہ اگر آپ نے اپنے کاروبار یا گھر کو وسعت دینے کے لیے سودی قرضہ لیا ہے تو یہ آپ کا اپنا فیصلہ اورآپ کی اپنی choice ہے‘او رآپ کو اس پر کسی نے مجبور نہیں کیا‘لہٰذا اس پر آپ کی پکڑہوگی اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ ربّ العزت کی پکڑ بہت سخت ہے.