آج کل ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ سود لینے کو اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہیں.مثلاًریٹائرمنٹ کے بعد کسی کو گریجویٹی ملتی ہے تو وہ اسے ان خطرات کے پیش نظر بینک میں رکھوا دیتا ہے کہ اگر کاروبار کے لیے کسی اور کو رقم دوں گا تو وہ کھا جائے گا اور اگر اپنے گھر میں رکھوں گا تو وہ ختم ہو جائے گی اور رفتہ رفتہ اس کی قیمت بھی کم ہو جائے گی. لہٰذا اپنے آپ کو مجبور ظاہر کرکے وہ یہ رقم بینک میں رکھوا دیتا اورپھر گھر بیٹھا سود کھاتا رہتا ہے. یہ یاد رکھیں کہ حرام کے لیے قطعاً کوئی عذر قابل قبول نہیں ہے. اس ریٹائر شخص کو چاہیے کہ قطعاً ایسا مت کرے ‘اس لیے کہ اس کے پاس کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ اس رقم کے ختم ہونے سے پہلے نہیں مرے گا. اُسے چاہیے کہ اس رقم سے اگر کوئی بڑا کاروبار نہیں کر سکتا تو اپنے مکان کی بیٹھک میں کوئی چھوٹی سی کریانے کی دوکان لگا کر بیٹھ جائے. اس سے گزارے کے مطابق مل جائے گا. اگر یہ بھی نہیں کر سکتا تو اس کو چاہیے کہ جو کچھ بھی اس کے پاس جمع پونجی ہے اس سے کھائے اور اللہ پر توکل رکھے. اس لیے کہ رزق اللہ کے ذمے ہے ‘کیا پتا اس کی جمع پونجی کے ختم ہونے سے پہلے ہی اس کی موت آ جائے اوراسے اکل حرام کی طرف نہ جانا پڑے. سود سے بچنا توبہرصورت ضروری ہے ‘اس لیے کہ براہ راست سود کی کوئی بھی شکل کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے. 

حرام کے لیے ویسے تو کوئی عذر قابل قبول نہیں‘ البتہ اگر آدمی کی جان پر بن گئی ہو‘ وہ مر رہا ہو اور سوائے کسی حرام شے کے کھانے کو کچھ میسر نہ ہو تو صرف جان بچانے کی حد تک حرام کھانے کی اجازت ہے. سورۃ البقرۃ میں اس حوالے سے قانون موجود ہے : 
فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ (آیت۱۷۳’’پھر جو کوئی مجبور ہو جائے اور وہ خواہش مند اور حد سے آگے بڑھنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں‘‘.یعنی اضطرار کی کیفیت اور انتہائی مجبوری کے عالم میں دو شرطوں کی موجودگی میں جان بچانے کی حد تک حرام کھانا جائز ہے. اوّلاً یہ کہ حرام کی طرف کوئی دلی تمنا نہ ہو اور دوسرے یہ کہ جان بچانے کے لیے جو کم سے کم مقدار ضروری ہے اس سے آگے نہ بڑھے.ان دو شرطوں کے ساتھ جان بچانے کے لیے حرام چیز بھی کھائی جا سکتی ہے‘ لیکن عام حالت میں اگر آپ اپنے کاروبار ‘ پیشے اور معاش میں حرام کا کوئی عنصر مستقل طور پر قائم کر لیتے ہیں تو پھر ہماری آج کی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ اس صورت میں تقویٰ کی نفی (negation) ہوجائے گی .