تقویٰ کی تعریف کے حوالے سے میں آپ کو ایک بہت پیارا واقعہ سنائے دیتا ہوں. ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مجلس شوریٰ میں یہ بات زیر بحث آ گئی کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں اور تقویٰ کی جامع اور مانع تعریف کیا ہو گی. اس پر بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی آراء کا اظہار کیا‘ لیکن حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ خاموش بیٹھے رہے یہ وہ صحابی ہیں جن کے بارے میں حضور نے فرمایاکہ میرے صحابہ میں قرآن کا سب سے بڑا عالم اور قاری اُبی بن کعب ہے تو حضرت عمرؓ نے کہا: اُبی! آپ نے کچھ نہیں کہا‘ آپ بتائیں تقویٰ کسے کہتے ہیں. اس پر انہوں نے تقویٰ کی وضاحت جس انداز میں فرمائی اس کا مفہوم کچھ یوں ہے :امیر المؤمنین! اگر کسی شخص کو کسی گھنے جنگل میں سے گزرنا پڑے اور وہاں نہ کوئی پگڈنڈی ہو‘ نہ کوئی راستہ ہو ‘ بلکہ اوپر کانٹے دار جھاڑیاں اور درخت ہوں اور نیچے اونچی اونچی گھاس ہو .ایسے میں انسان بہت چوکنا ہو کر پھونک پھونک کر قدم رکھے گاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہو یا کسی اور موذی جانور کا بل یا بھٹ ہو اور وہاں پاؤں پڑ جائے آپ کو (۱) سنن ابن ماجہ‘ کتاب الصیام‘ باب ما جاء فی الغیبۃ والرفث للصائم. ومسند احمد‘ ح۹۳۰۸‘راوی:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ. معلوم ہے کہ ایمیزون یا کانگو جیسے گھنے جنگلات میں تو درختوں سے لٹکے ہوئے سانپ بھی موجود ہوتے ہیں. ان جنگلات میں سے اگر کسی کو گزرنا ہو تو وہ کس طرح چوکنا ہوکر اور احتیاط کے ساتھ وہاں پاؤں رکھے گادرحقیقت انسان کا اپنی پوری زندگی معصیت الٰہی سے بچنا‘ گناہوں سے بچنا‘ اللہ کی نافرمانی سے بچنا‘ حدودِشریعت تجاوز کرنے سے بچنا اور تمام خرافات ‘ رسومات و بدعات سے بچنا تقویٰ کہلاتا ہے.