اس پہلو سے درحقیقت یہ زندگی ایک سفر ہے . چنانچہ رسول اللہ نے فرمایا: 

کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ 
(۱
’’دنیا میں ایسے رہو جیسے کہ تم اجنبی ہو یاراستے سے گزرنے والے( مسافر) .‘‘ 

اس حدیث میں دنیا کی زندگی میں دو انداز اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی گئی ہے‘ ایک اجنبی کا اور دوسرے مسافر کا. اور یہ دونوں انداز بہت قابل غور ہیں.اصل میں ہم دیکھتے ہیں کہ عام لوگوں کی دلچسپیاں کیا ہیں‘ لوگ کدھر دوڑے جا رہے ہیں. ہر ایک کو دنیا کی پڑی ہوئی ہے ‘ ہر کوئی بہتر سے بہتر مکان‘ عالی شان محل‘ نئی ماڈل کی کار‘ الغرض دنیوی لحاظ سے اعلیٰ سے اعلیٰ تر کی تلاش و جستجو میں ہے. اس صورتحال میں ایک آدمی اگر ایسا ہو جو حق پر چلنے والا ہو اور جس نے اپنے آپ کو دین اسلام کے لیے وقف کر دیا ہو‘ ظاہری بات ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان دنیاداروں کے ماحول میں اجنبی پائے گا. 

دوسری بات اس حدیث میں یہ فرمائی گئی ہے کہ یا پھر اس دنیا میں ایسے رہو کہ جس طرح راستہ گزرنے والا ہوتا ہے .ایسے شخص کو راستے سے قطعاً کوئی پیار نہیں ہوتا‘اس لیے کہ اس کی نظر میں اصل چیز منزل ہے جہاں اسے پہنچنا ہے اور راستہ تو بس اس منزل تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہایک چٹائی پر آرام فرماتھے. جب آپؐ 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب قول النبی  کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل. وسنن الترمذی‘ ابواب الزھد‘ باب ما جاء فی قصر الامل. ؐ اُٹھ کر کھڑے ہوئے تو آپؐ کے پہلو مبارک پرچٹائی کے نشانات تھے.ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسولؐ ! ہم آپ کے لیے ایک بچھونا تیار کرادیں؟ اس پر رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

مَالِیْ وَمَا لِلدُّنْیَا ‘ مَا اَنَا اِلاَّ فِی الدُّنْیَا کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَا 
(۱
’’مجھے اس دنیا سے کیا سرورکار! میں تو دنیا میں ایسے ہی ہوں جیسے ایک سوار کسی درخت کے سائے میں تھوڑی دیر کے لیے رکتا ہے ‘ پھر وہ ذرا آرام کرنے کے بعد اسے چھوڑ کر چل دیتا ہے.‘‘
یہ درخت نہ تو اس سوار کا ٹھکانہ ہے اور نہ ہی اسے یہاں ہمیشہ رہنا ہے . یہی حیثیت ہمارے لیے دنیا کی ہے ‘بایں صورت کہ ہماری منزل دنیا نہیں کچھ اور ہے. اس لیے دنیا میں تو عام چھت کے سائے کو بھی بہت غنیمت سمجھو اور عالی شان محلات کی آرزوئیں دماغ سے نکال دو‘ دنیا کی چیزوں کی طلب دل سے باہر کر دو. سمندر میں کشتی پانی پر چلتی ہے ‘ لیکن اگر یہ پانی کشتی میں آ جائے تووہ ڈوب جاتی ہے. اسی طرح دنیا کو بھی سمندر سمجھوجس میں تمہاری کشتی چلتی ہے‘ لیکن اس کی محبت‘ اس کی آرزو‘ اس کی تمنا تمہارے دل میں نہ آنے پائے‘ ورنہ تم ڈوب جاؤ گے.