اسی حوالے سے ایک اور اہم حدیث ملاحظہ ہو. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا (۲’’اسلام کا جب آغاز ہوا تو وہ غریب (اجنبی) تھا ‘‘.ظاہر بات ہے کہ اس وقت آپ تنہا تھے اور معدودے چند ساتھی تھے‘ تو اسلام اس وقت غریب تھا. اس کے بعد ایک وقت آیا کہ اسلام کو اللہ (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الزھد‘باب ما جاء فی اخذ المال بحقہ. وسنن ابن ماجہ‘ کتاب الزھد‘ باب مثل الدنیا.

(۲) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان ان الاسلام غریباً وسیعود غریبا … وسنن الترمذی‘ کتاب الایمان‘ باب ما جاء ان الاسلام بدأ غریبا وسیعود غریبا. 
نے طاقت دی : اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾ (النصر) ’’جب اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح آ گئی اور آپؐ نے دیکھا کہ لوگ جوق در جوق اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں‘‘.آگے آپنے ایک پیشین گوئی فرمائی : وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ غَرِیْبًا ’’عنقریب اسلام پھر اجنبی ہوجائے گا جیسا کہ وہ پہلے اجنبی تھا‘‘ عربی زبان میں فعل مضارع مستقبل اور حال دونوں کے لیے آتا ہے ‘ لیکن جب فعل مضارع پر ’’سَ‘‘ یا ’’سَوْفَ‘‘ آجائے تو س سے فعل مضارع صرف مستقبل کے لیے خاص ہو جاتا ہے ‘جیسے : سَیَقُوۡلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىہُمۡ عَنۡ قِبۡلَتِہِمُ الَّتِیۡ کَانُوۡا عَلَیۡہَا ؕ ’’عنقریب کہیں گے لوگوں میں سے یہ نادان لوگ کہ کس چیز نے انہیں پھیر دیا ان کے قبلے سے جس پر وہ تھے‘‘.اس آیت میں تحویل قبلہ کا حکم آیاہے اور یہاں فعل مضارع پر ’’سَ‘‘ آنے کی وجہ سے زمانہ مستقبل قریب مراد ہو گا یہاں بھی فرمایاگیا: وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ غَرِیْبًا کہ عنقریب اسلام پھر غریب ہو جائے گا جیسا کہ پہلے تھا‘ تو یہ بھیزمانہ مستقبل قریب کی بات ہے.

اب جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان غریب نہیں رہے بلکہ امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے ‘ لیکن اسلام خلافت راشدہ کے خاتمے کے ساتھ ہی غریب سے غریب تر ہوتا چلا گیا.یہ ایک بہت بڑا تضاد معلوم ہوتا ہے . دورِ بنو اُمیہ اور دورِبنو عباس میں مسلمانوں کو بہت عروج حاصل ہوا. تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ مسلمان اس دور میں ترقی پر ہیں‘ ان کی شان و شوکت ہے‘ اس وقت کی دنیا کی عظیم ترین سلطنت مسلمانوں کی ہے‘ لیکن دین اسلام غریب ہونا شروع ہو گیا. اس کی پہلی تہہ یعنی خلافت ختم ہوئی تو ریاست اور سیاست کا معاملہ سب سے پہلے ختم ہوا. اس کا اسلام سے تعلق نہیں رہا ‘بلکہ اب جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہو گیا. یعنی اب مشاورت سے طے نہیں ہوگا کہ کون اہل ترین آدمی ہے‘ کون سب سے زیادہ متقی ہے‘ کون سب سے زیادہ اللہ کو جاننے اور پہچاننے والا ہے‘ بلکہ جس کے پاس قوت ہے اسی کی حکومت ہوگی. اس طرح آہستہ آہستہ اسلام غریب ہونا شروع ہو گیا اور پھر حال یہ ہو گیا کہ 
مسلمان بادشاہوں کے دور میں کم از کم جو قاضی ہوتے تھے اور مقدموں کا فیصلہ جوشریعت کے مطابق ہوتا تھا‘وہ بھی مغربی استعمار کے آنے سے ختم ہو گیا. قاضی کے بجائے مجسٹریٹ آ گئے اور شریعت کے بجائے انگریز کا بنایا ہوا فوجداری اور دیوانی قانون آگیا‘البتہ انہوں نے ایک بڑی رعایت یہ کی تھی کہ ہمارے عائلی قوانین اور نماز روزے کی ہمیں اجازت دے رکھی تھی‘ لیکن باقی تو پورے کا پورا نظام ان کا تھا. تو اس طریقے سے ہوتے ہوتے اسلام غریب سے غریب تر ہو گیا.

مندرجہ بالا حدیث کا آخری جملہ بہت غور طلب ہے. آپ نے آخر میں فرمایا: 
فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ ’’پس مبارک باد ہے غریبوں( اجنبیوں) کے لیے ‘‘ .اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اسلام اپنے اجنبیت کے دور میں چلا جائے گا‘ تب دو راستے ہوں گے. یا تو آپ اسلام کا دامن چھوڑدیں اور معاشرے میں جس چیز سے عزت و مقام ملتا ہے وہی حاصل کریں اور اسی کے لیے کوشش کریں .اور جو راستہ اونچائی کی طرف جاتا ہے آپ بھی اسی پرچل پڑیں ؏ ’’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘. یا دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس سب کو چھوڑو اور اسلام کے دامن سے چمٹے رہو. اسلام اگر غریب ہو گیا ہے تو تم بھی غریب ہو جاؤ. تمہارے جاننے پہچاننے والے ‘ملنے ملانے والے بھی پھر نہیں رہیں گے اور تم سے کوئی رشتہ داری کرنا بھی پسندنہیں کرے گا. ظاہر بات ہے کہ پھر تم اس معاشرے کے اندر اجنبی ہو گے ‘لیکن ایسے اجنبی لوگوں کے لیے نبی آخر الزماں کی زبان مبارک سے مبارک باد کے کلمات کہے گئے ہیں: فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاِء ’’پس مبارک باد ہے ایسے غرباء کے لیے‘‘اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرم کی اس تہنیت اور مبارک باد کا مستحق بنائے. آمین یا ربّ العالمین! 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات