۲۸/ ستمبر ۲۰۰۷ء کا خطابِ جمعہ 
خطبہ ٔمسنونہ کے بعد: 

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

یٰۤاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ 
(المؤمنون:۵۱
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ 
(البقرۃ:۱۷۲
عَنْ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَـقُوْلُ : 

اِنَّ الْحَلَالَ بَـیِّنٌ‘ وَاِنَّ الْحَرَامَ بَـیِّنٌ، وَبَیْنَھُمَا اُمُوْرٌ مُشْتَبِھَاتٌ لَا یَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ ، فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُھَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ، وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الْحَرَامِ کَالرَّاعِی یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ اَنْ یَّرْتَعَ فِیْہِ، اَلاَ وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی، اَلاَ وَاِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہٗ، اَلاَ وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ ، وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ ، اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ 
(۱

ابوعبداللہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے ‘کہتے ہیں میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا :

’’حلال چیزوں کا حکم بالکل واضح ہے اور حرام چیزوں کا حکم بھی واضح ہے‘ اور ان دونوں (حلال و حرام) کے درمیان کچھ امورمتشابہ ہیں جن کی (حلت و حرمت) (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب فقل من استبرأ لدینہ .وصحیح مسلم‘ کتاب المساقاۃ‘ باب اخذ الحلال وترک الشبہات. کو اکثر لوگ نہیں جانتے .پس جو شخص اس قسم کی غیر واضح اشیاء سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا‘ اور جو شخص اس قسم کے امور کو اختیار کرنے لگے وہ حرام میں جا پڑے گا ‘جیسا کہ کوئی چرواہا (کسی ممنوعہ) چراگاہ کے آس پاس جانوروں کو چرائے تو ہو سکتا ہے کہ جانور چراگاہ میں جا پہنچیں. خبردار! ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چراگاہ سے مراد اُس کی حرام کردہ اشیاء ہیں. خبردار!جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ‘اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے . خبردار! وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے.‘‘

گزشتہ جمعۃ المبارک کو ’’اکل حلال کی اہمیت‘‘ کے عنوان کے تحت اَکل حلال کی اہمیت‘ حرام اشیاء‘ حرام کاموں اور حرام آمدنی سے اجتناب کی اہمیت پر مندرجہ بالا دو آیات کے حوالے سے ‘جو میں نے آ ج بھی تلاوت کی ہیں‘ گفتگو ہوئی تھی. اسی حوالے سے میں نے اربعین نووی کی حدیث نمبر۱۰کا مطالعہ بھی کرایا تھا. آج ہمارے زیر مطالعہ اربعین نووی کی حدیث نمبر۶ہے جو اسی موضوع سے متعلق ہے‘ لہٰذا آج کی گفتگو کو اسی مضمون کا تسلسل سمجھئے.

زیرمطالعہ حدیث حضرت ابوعبداللہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی متفق علیہ حدیث ہے‘ یعنی اس کو امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے نقل کیا ہے اس حوالے سے میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ متفق علیہ حدیث سند کے مستند ہونے کے اعتبار سے سب سے بلند درجے کی ہوتی ہے اس حدیث کا مضمون بہت اہم ہے. رسول اللہ نے فرمایا: اِنَّ الْحَلَالَ بَـیِّنٌ ’’حلال بالکل واضح ہے‘‘ وَاِنَّ الْحَرَامَ بَـیِّنٌ ’’اور حرام بھی بالکل واضح ہے‘‘ وَبَیْنَھُمَا اُمُوْرٌ مُشْتَبِھَاتٌ ’’اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں‘‘ یعنی کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں یقین سے کہنا مشکل ہے کہ یہ حلال ہیں یا حرام . لَا یَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ ’’ان کے (شرعی حکم )کے بارے میںلوگوں کی اکثریت نہیں جانتی‘‘. البتہ رسوخ فی العلم رکھنے والے علماء وفقہاء کرام جن کی قرآن ‘ حدیث و سنت‘ شریعت کے مقاصد ‘ شریعت کے محکمات اور اصولِ شریعت پر گہری نظر ہو‘ وہی پہچان سکتے ہیں کہ ان مشتبہات اشیاء میں سے کون سی چیز حلال کے دائرے میں آئے گی اور کون سی حرام کے دائرے میں.

شرعی احکام اور اس کے درجات

فقہاء نے شرعی احکام کے بہت سے درجے قائم کیے ہیں.کرنے والے اعمال میں سب سے اونچا درجہ فرض کا ہے اور نہ کرنے والے اعمال میں سے سب سے سخت ترین ممانعت والی شے حرام ہے. فرض سے کم تر درجہ واجب کا ہے ‘یعنی فرض تو نہیں ہے‘لیکن فرض کے قریب تر ہے مثلاًوتر کی نماز واجب ہے اور اس کی قضا لازم ہے‘ اس کے بعد سنت کا درجہ ہے . اس سے بھی نیچے مستحب ہے‘ جس کا کرناپسندیدہ ہے اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے‘ جبکہ سب سے اخیر میں مباح ہے. یہ تمام درجات اوامر یعنی کرنے والے کاموں کے ہیں‘ لیکن اگر جائز سے ناجائز اور اوامرسے نواہی کی طرف جائیں تو اس میں سب سے پہلے مکروہ آتا ہے .پھر مکروہ کی بھی دو قسمیں ہیں: سب سے نچلا درجہ مکروہ تنزیہی کا ہے اور پھر اس سے بھی آگے مکروہ تحریمی کا درجہ ہے .یہ اوامر میں سے واجب کے مقابلے میں ہے جو فرض کے ساتھ چمٹا ہوا ہے. اسی طرح نواہی میں مکروہ تحریمی حرام کے ساتھ چمٹاہوا ہے.(شرعی احکام اور اس کی انواع و اقسام کے حوالے سے تفصیلی چارٹ خطاب کے آخر میں ملاحظہ ہو!) 
اب ظاہر بات ہے کہ یہ تمام درجات فقہاء نے قائم کیے ہیں اور فقیہہ کہتے ہیں تفقہ رکھنے والے اورفہم رکھنے والے شخص کو‘ جس کی شرائط مختصراً میں نے آپ کے سامنے رکھیں کہ قرآن مجید پر بڑی گہری نگاہ رکھتا ہو ‘ تدبر اور غور و فکر کیا ہو‘ حدیث اور سنت پر پوری وسعت اور پوری گہرائی کے ساتھ اس کی نظر ہو‘ شریعت کے اصل مقاصدکی پہچان ہو. ایسا نہ ہو کہ کسی کم تر اہمیت والی شے کو اہم تر قرار دے دے اور زیادہ اہمیت والی کو کم تر قرار دے دے. شریعت کے اندر اور دین کے مختلف عناصر کے درمیان جو نسبت و تناسب 
(ratio proportion) ہے اس کی سمجھ بہت ضروری ہے. تو ان مشتبہ امور کے بارے میں بھی صرف ایسے ہی فقہاء علم رکھتے ہیں‘ جبکہ عوام کی اکثریت ان کے احکام سے لاعلم ہے. 

تقویٰ کا تقاضا:مشتبہات سے بچنا

مشتبہات سے بچنے کے حوالے سے یہ نوٹ کرلیں کہ اس کے دوپہلوہیں.ایک اس کا قانونی پہلوہے جس کی تفصیل آگے آئے گی‘جبکہ اس کا دوسرااور اہم تر پہلو تقویٰ کے حوالے سے ہے. اس ضمن میں تقویٰ کا پہلو یہ ہے کہ تمام مشتبہ امور اور اشیاء سے بچا جائے.یعنی جب شبہ والی چیز ہے تو پھر کیوں اختیار کرتے ہو! چنانچہ اسی ضمن میں نبی اکرم کی بڑی پیاری حدیث ہے ‘جو آپؐ کے پیارے نواسے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے : دَعْ مَا یَرِیْـبُکَ اِلٰی مَا لاَ یَرِیْبُکَ (۱’’جس چیز سے تمہیں اپنے دل میں کھٹک محسوس ہو (کہ ہو سکتا ہے یہ کام غلط ہو) اسے چھوڑ دو اور وہ شے اختیار کرو جس سے تمہارے دل میں کوئی کھٹک پیدا نہ ہو‘‘ رَابَ یَرِیْبُ رَیْـبًا کے معنی ہیں کسی کو شک یا قلق میں ڈالنا. چنانچہ لفظی اعتبار سے حدیث کا مفہوم یہ ہو گا کہ جو چیز تمہارے اندر شکوک و شبہات پیدا کرے‘ جس سے تمہارے دل میں کسی قسم کی کوئی خلش اور کھٹک پیدا ہو تو اس کو چھوڑ دو اور اُس چیز کو اختیار کرو جس سے تمہارے دل کے اندر کوئی خلش‘ کوئی پریشانی‘ کوئی تشویش پیدا نہ ہو.

اس حدیث میں ایک بہت اہم نکتہ بیان ہوا ہے کہ اپنی دلی کیفیت کے مطابق فیصلہ کرو. اب جس دل میں ایمان ہے وہ دل سب سے بڑ امفتی ہے‘ لیکن یاد رکھیں کہ اس کے لیے حقیقی ایمان شرطِ لازم ہے. چنانچہ احادیث کے ذخیرے میں ہمیں ایک بڑی پیاری حدیث ملتی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھاتو آپؐ نے فرمایا: 
اِسْتَفْتِ نَفْسَکَ ‘ اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ ٭ ’’تم اپنے نفس سے پوچھو‘ اپنے دل سے پوچھو!‘‘اور آخر میں فرمایا: وَاِنْ اَفْتَاکَ النَّاسُ وَاَفْتَـوْکَ ٭ ’’اگرچہ لوگ اس کے بارے میں تمہیں کچھ بھی فتویٰ دیں‘‘.یعنی اگر کوئی مفتی تمہیں فتویٰ دے بھی کہ یہ جائز ہے‘ لیکن تمہارا دل اس پر مطمئن نہ ہو تو تم اسے چھوڑو. اس لیے کہ اللہ کا ایک مفتی ہے جو تمہارے جسم میں دل کی صورت میں موجود ہے ‘وہ اس کے خلاف فتویٰ دے رہا ہے. البتہ یہ اسی صورت میں ہے جب تمہارے دل میں ایمان موجود ہے‘ اور اگر (۱) صحیح البخاری‘ کتاب البیوع‘ باب تفسیر المشتبہات.وسنن الترمذی‘ ابواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع‘ باب منہ. 

٭ موضوع کی مناسبت سے حدیث کا مکمل متن اور ترجمہ ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے. 
حضرت وابصہ بن معبد اسدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے مجھ سے فرمایا 
جِئْتَ تَسْاَلُ عَنِ الْبِرِّ وَالْاِثْمِ :’’تم نیکی اور گناہ کے بارے میں دریافت کرنے آئے ہو؟‘‘میں نے عرض کیا:جی ہاں! پھر آپؐ نے اپنی انگلیوں کو اکٹھا کر کے میرے دل پر مارا اور فرمایا: اِسْتَفْتِ نَفْسَکَ اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ یَا وَابِصَۃُ ثَلَاثًا اَلْـبِـرُّ مَا اطْمَأَنَّتْ اِلَیْہِ النَّفْسُ وَاطْمَاَنَّ اِلَیْہِ الْقَلْبُ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِی النَّفْسِ وَتَرَدَّدَ فِی الصَّدْرِ وَاِنْ اَفْتَاکَ النَّاسُ وَاَفْتَوْکَ (سنن الدارمی‘ کتاب البیوع‘ باب دع ما یریبک الی ما لا یریبک) 
’’اے وابصہ(نیکی اور گناہ کے بارے میں) اپنے آپ سے پوچھو‘ اپنے دل سے پوچھو‘ آپ نے تین بار فرمایا نیکی وہ ہے جس سے تمہارا نفس اور دل مطمئن ہو‘ جبکہ گناہ وہ ہے جو تمہارے جی میں کھٹکے اور تمہارا سینہ اس کے بارے میں متردد ہو‘ خواہ لوگ اس کے بارے میں تمہیں کوئی بھی فتویٰ دیں.‘‘ 

(اضافہ از مرتب) 
ایمان نہیں ہے تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے. لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ تشویش تو اسی کو لاحق ہو گی جس کے دل میں کچھ نہ کچھ ایمان موجود ہے. جیسے منافق اور مؤمن کا فرق بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ منافق کو بھی اپنے گناہ یا غلطی کا احساس ہوتا تو ہے‘ لیکن بس اتنا ہی جتنا کسی کے ناک پرمکھی بیٹھی اور اس نے ذرا ہاتھ ہلا کر اسے ہٹا دیا. دوسری طرف مؤمن سے اگر کوئی گناہ سرزدہو جائے یا کوئی غلطی ہو جائے تو اس کو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی پہاڑ تلے آ گیا ہے. تو یہ اندرونی احساس کی بات ہے. لہٰذا جس کے دل میں تشویش پیدا ہو گئی تو یہ گویا ایمان کی علامت ہے ‘تو وہ اپنے دل سے فتویٰ لے سکتا ہے. 

نور الدین زنگی کا سبق آموز واقعہ

اس ضمن میں ہماری تاریخ کا ایک بڑا عبرت آمیز اور سبق آموز واقعہ ہے سلطان نور الدین زنگی کا‘ جس کے بعد جانشین بنے فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ عیسائیوں کا یروشلم پر تقریباً ۸۸برس کا جو قبضہ تھا اسے واگزار کرانے والا مجاہد اعظم صلاح الدین ایوبی ؒ نور الدین زنگی کے ساتھیوں اور فوجیوں میں سے تھا نورالدین زنگی کا بیٹا شدید بیمار ہو گیا.ہر طرح کے علاج معالجے آزمائے گئے مگر بے سود. آخر اطباء نے کہا کہ اب اس کی جان بچانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ یہ شراب پی لے. سلطان نے کہا : معاذ اللہ!میں اپنے بیٹے کو حرام چیز استعمال کراؤں! اطباء نے بتایا کہ اس پر علماء کا فتویٰ ہے کہ جان بچانے کے لیے حرام چیز استعمال کی جا سکتی ہے.سلطان کو تسلی نہ ہوئی اور اس اللہ کے بندے نے فرداً فرداً چاروں مکاتب فکر کے علماء سے فتویٰ لیا تو سب نے یہی کہا کہ جان بچانے کے لیے جان بچانے کی مقدار تک حرام شے استعمال کر لینا جائز ہے. دیکھئے یہ شہزادہ ہے اور بیٹوں کی زندگی سب کو عزیز ہوتی ہے‘ لیکن نور الدین زنگی کے تقویٰ کا عالم َملاحظہ ہو کہ فتویٰ آ جانے کے بعد بھی دل کو تسلی نہ ہوئی‘ دل میں خلش اور کھٹک باقی رہی. اُس نے جان بچانے کے لیے شراب کے جواز کا فتویٰ دینے والے مفتیانِ کرام کو اپنے دربار میںبلایااور کہا: اللہ کی مشیت کے مطابق اگر میرے بیٹے کی موت کا وقت آ ہی گیا ہے تو کیا یہ شراب اسے بچا لے گی؟ انہوں نے کہا :نہیں! اُس نے پوچھا: اگر اللہ اسے صحت دینا چاہے تو کیا وہ شراب کا محتاج ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں!اس پر سلطان نے کہا :تو اپنے یہ فتوے اپنے پاس رکھو! چنانچہ اُس اللہ کے بندے نے اپنے بیٹے کی قربانی دے دی‘مگر اسے شراب نہیں پلوائی.تو تقویٰ کی یہ مثالیں ہمارے مسلم بادشاہوں میں بھی رہی ہیں. ظاہر بات ہے کہ یہ بادشاہ خلفاء راشدین کے پائے کے لوگ تو نہ تھے‘ لیکن ان کے تقویٰ کا یہ عالم تھا. ہمارے بادشاہوں میں ہندوستان میں دو ایسے عظیم بادشاہ گزرے ہیں جنہوں نے خزانے سے ایک پیسہ نہیں کھایا کہ وہ تو ایک امانت ہے . شہنشاہ ہند اورنگزیب عالمگیر ٹوپیاں بنا کر بیچ رہا ہے اور قرآن مجید لکھ لکھ کر اُجرت لے رہا ہے. اس طرح کی صفات کا حامل مغلوں کے آنے سے پہلے ناصر الدین محمود ہے. اسی طرح نور الدین زنگی بھی ایک بہت بڑی مثال ہے .

تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ جو مشتبہات ہوں ‘ جن کے بارے میں صراحت موجود نہ ہو ان میں ملوث ہونے کے بجائے ان سے بچا جائے. البتہ قانون یہ نہیں ہے‘ قانون یہ ہے کہ جس شے کی حرمت ثابت نہیں ہے وہ حلال ہے . اگر بالفرض قانون یہ ہوتا کہ صرف وہ شے حلال ہو گی جس کی حلت ثابت ہو جائے تو اس طرح حلال کا دائرہ بہت محدود ہو جاتا. لہٰذا یہ نوٹ کر لیں کہ اس حوالے سے قانون یہ ہے کہ جس شے کی حرمت 
کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہے وہ حلال اور مباح (permissible) ہے . اس اصول کے تحت قانونی سطح پر ہمارے ہاں مباحات کا دائرہ بہت وسیع ہے. 

جدید اسلامی ریاست میں ازسرنو قانون سازی کی ضرورت

اس ضمن میں ایک اہم مسئلہ میں آپ کو بتا رہا ہوں ویسے تو یہ تقدیر مبرم ہے کہ دنیا میں دوبارہ خلافت کا نظام قائم ہو گا اور وہ عالمی سطح پر ہو گا. یہ تو رسول اللہ کی دی ہوئی خبریں ہیں جن کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. البتہ ا س سے پہلے کیا کیا ہونا ہے‘ ہماری شامت اعمال کس کس شکل میں ہمیں بھگتنی ہے‘ اللہ کے عذاب کے کوڑے ہم پر کیسے کیسے برسنے ہیں‘ یہ دوسری بات ہے. ہم پاکستانیوں پر ایک کوڑا ۱۹۷۱ء میں برسا تھا جب پاکستان دولخت ہو گیاتھا. اب کون سا کوڑا آنے والا ہے‘ یہ میں نہیں کہہ سکتا‘ لیکن ہم سزا کے مستحق ضرور ہیں. ہم نے اللہ سے بے وفائی کی ہے‘ وعدہ خلافی کی ہے. ہم نے تو دعائیں مانگ مانگ کر اللہ سے یہ ملک لیا تھا .ہم نے کہا تھا:اے اللہ! تو ہمیں انگریز اور ہندو کی دوہری غلامی سے نجات دے دے اور ہمیں ایک آزاد خطہ ٔارضی عطا فرما دے تو ہم وہاں پر تیرے دین کا بول بالا کریں گے.لیکن نصف صدی گزرنے کے باوجود ہم نے اس وعدے کو پورا نہیں کیا. البتہ کروڑوں اربوں کے محلات ہم نے بنا لیے. کئی کئی کروڑ کی کوٹھی آپ کو ڈیفنس میں مل جائے گی. ڈیفنس کیا اب تو یہاں ماڈل ٹاؤن اورجوہر ٹاؤن کے اندر بھی ایسے ایسے محل نما گھر موجود ہیں جن کو دیکھ کر آپ کو نظر آئے گا کہ پاکستان تو جنت ہی جنت ہے‘ یہاں پر تو شاید غربت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. یہ سب تو ہم نے کیا ‘لیکن وہ اسلام کہاں ہے جس کا ہم نے اپنے رب سے وعدہ کیا تھا؟ یہ یاد رکھیں کہ اس وعدہ خلافی کی سزائیں تو ہمیں ملنی ہیں. اس موضوع پر میری ایک کتاب ’’سابقہ اور موجودہ مسلمان اُمتوں کا ماضی‘ حال اور مستقبل‘‘ کا ضرور مطالعہ کیجیے جس میں میںنے اُمت مسلمہ کے ماضی اور حال پر بھی روشنی ڈالی ہے اور مستقبل کی جھلک بھی پیش کی ہے. بدقسمتی سے آج کا انسان بس حال میں پھنسا ہوا ہے اور اُسے بس اسی کی فکر ہے کہ میرا آج کا مسئلہ کیا ہے‘ میرے اِس وقت کے مسائل اور معاملات کیا ہیں اور میں کس طرح انہیں حل کرسکتا ہوں.نہ اسے ماضی سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ مستقبل کی فکر.میرا ایک مشغلہ (hobby) ساہے کہ کوئی نیا ملاقاتی آتا ہے تو میں اس کا پس منظر جاننے کی کوشش کرتا ہوں. مجھے سمجھ میں آجاتا ہے کہ یہ شخص مہاجر ہے اورجمنا پار کا ہے .پوچھنے پر وہ بتاتا ہے کہ ہم یوپی سے ہیں. بھئی کس جگہ سے ہیں؟ یہ اُسے نہیں پتا ہوتا. اس کو اتنی دلچسپی نہیں ہے کہ میرے باپ داداکہاں سے ہجرت کر کے آئے تھے. ماضی قریب سے اتنی عدم دلچسپی ہو چکی ہے تو اس سے آگے کی تاریخ آپ کہاں پڑھیں گے . ہندوستان میں مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ ہے ‘اس میں کیا کیا نشیب و فراز آئے ہیں‘ ان میں کیا کیا خیر کے پہلو تھے اور کیا کیا شر کے‘ یہ جاننے کی کیونکر فکر ہو گی؟ اسی طرح مستقبل کی بھی کوئی فکر نہیں ہے. بس کل کی روٹی ‘ اپنے کاروبار‘ پروفیشن اور ملازمت وغیرہ کی فکر ہے. اللہ اللہ خیر سلا. ّ

بہرحال میں کہہ رہا تھا کہ یہ تو یقینی بات ہے کہ قیامت سے قبل پوری دنیا میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی ‘لیکن اس حوالے سے عام طور پر خیال یہ ہے کہ جیسے ہی اسلامی ریاست قائم ہو گی تو فقہ جو مرتب شدہ ہے‘ بس وہ نافذ کر دی جائے گی .یہ بڑی ہی ناسمجھی کی بات ہے . اول تو سوال پیدا ہو گا کہ کون سی فقہ نافذ کی جائے حنفی‘ شافعی‘ مالکی‘ یا حنبلی؟اہل تشیع نے ایران میں خون بہا کر‘ جانیں دے کر انقلاب برپا کیا‘ بادشاہ کو بھگایا اور پھر وہاں جعفری فقہ نافذ کی لیکنایران کا معاملہ بالکل الگ ہے‘ اس لیے کہ وہاں اہل سنت بہت معمولی سی اقلیت ہیں اور ’’مین لین‘‘ یعنی ایران کے درمیان کے دائرہ میں اہل سنت موجود ہی نہیں.البتہ جنوب مشرق میں کچھ بلوچ ‘جنوب مغرب (صوبہ اہواز)میں کچھ عرب ‘ شمال مغرب میں کچھ ُکرد اور شمال مشرق میں کچھ افغان یا ترک سنی ہیں‘ جبکہ باقی سارے ایران میں شیعہ ہیں. انہوں نے تووہاں جعفری‘فقہ نافذ کی ہے‘مگرآپ یہاں کون سی فقہ نافذ کریں گے‘یہ ایک بہت بڑامسئلہ ہے. آپ کے ہاں تو شیعہ سنی یوں رہتے ہیں کہ اوپر کے فلیٹ میں سنی ہے تو نیچے شیعہ‘ یا نیچے سنی ہے تو اوپر شیعہ.

اس حوالے سے دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ فقہیں آج سے تقریباً ایک ہزار سال 
پہلے مرتب ہوئی تھیں. وقت کے دریا میں بہت سا پانی بہہ چکا ہے‘ بہت سے نئے مسائل پیدا ہو چکے ہیں جو ان فقہوں میں نہیں ہیں. پھر بدقسمتی سے ہمارے علماء نے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا ہے‘ جبکہ اہل تشیع نے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور ان کے ہاں بڑے علماء مجتہد کہلاتے ہیں. سب سے اوپر مراجع ہیں جو آخری اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ آیت اللہ خمینی نے ’’ولایت الفقیہہ‘‘ کی بنیاد ڈالی جو آج بھی ایران میں رائج ہے. اس کے مطابق اصل حکمرانی فقہاء و علماء کی ہے. اگرچہ انتخابات ہوتے ہیں‘ لیکن انتخابات میں کون حصہ لے سکتا ہے اورکون نہیں ‘اس کا فیصلہ علماء کی شوریٰ کرتی ہے اور جس کو وہ مسترد کر دیں تو پھر وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا. آپ کو معلوم ہے کہ انقلابِ ایران کے بعد بنی صدر ایران کے پہلے صدر بنے تھے اور انہوں نے غالباً ۹۹فیصد ووٹ حاصل کیے تھے ‘لیکن آیت اللہ خمینی نے کان سے پکڑ کر انہیں نکال دیا .تووہاں اصل حکومت علماء کی ہے اور یہ اس دور کے اندر تھیوکریسی کی بڑی نمایاں مثال ہے. 

بہرحال اللہ ہمیں توبہ کی توفیق عطا فرمادے اور پاکستان حقیقی معنوں میں ایک اسلامی ملک بن جائے اگرچہ اس کے آثار کوئی نہیں ہیں تو یہاں قانون سازی 
(legislation) از سر نوہو گی. مباحات کے دائرے میں آپ نئے نئے قوانین بنائیں گے. جو چیز کتاب و سنت سے ثابت ہو گئی وہ تو بعینہٖ اسی طرح نافذ ہو جائے گی. پھر پرسنل لاء میں تمام فقہوں کو acknowledge کیا جائے گا‘ یعنی ذاتی معاملات مثلاً شادی بیاہ‘ وراثت اور عبادات وغیرہ خواہ آپ فقہ حنفی کے تحت کرنا چاہتے ہیں یا فقہ شافعی کے تحت یا فقہ جعفری کے تحت ‘آپ کو آزادی ہو گی یہ عبادات ‘ عائلی قوانین اور وراثت وغیرہ کے معاملات پرسنل لاء کے دائرے میں آتے ہیں لیکن قانونِ ملکی (Law of the land) میں کوئی فقہ تشکیل نہیں دی جائے گی‘ اس لیے کہ ساری فقہیں ہماری مشترکہ وراثت علمی (common heritage) ہیں کہ کسی ایک معاملے میں امام ابوحنیفہ ‘ امام مالک ‘ امام شافعی ‘ امام احمد بن حنبل ‘امام ابن تیمیہ اورامام جعفرصادق کی آراء کیا ہیں.اس طرح تو ہمارے پاس علم کا خزانہ آ گیا جیسا کہ آپ کو معلوم ہے عدالتوں کے اندر نظائر (precedents) پیش کیے جاتے ہیں. آپ کے ہاں سپریم کورٹ میں کوئی مقدمہ زیر سماعت ہے تو اس کے لیے کہاں کہاں سے نظیر ڈھونڈ کر لانی پڑتی ہے کہ پریوی کونسل برطانیہ نے فلاں سن میں فلاں مقدمہ میں یہ فیصلہ دیا تھا. تو ان precedents کو فیصلہ کن اہمیت حاصل ہوتی ہے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام کے بعد فقہاء کی آراء کی حیثیت بھی ہمارے لیے نظائر کی ہوجائے گی اور انہیں ازسر نو قانون سازی میں بہت اہمیت حاصل ہوگی. 

مشتبہات سے بچنے کا قانونی پہلو

اربعین نووی کی زیر مطالعہ حدیث کے حوالے سے میں نے بتایا تھا کہ اس کے دو پہلو ہیں. تقویٰ کا تقاضا تویہ ہے کہ شبہات سے ہر صورت بچا جائے ‘ لیکن اس کا قانونی پہلو اس کے بالکل برعکس ہے کہ جو شے کتاب و سنت کے دلائل اور نصوص سے حرام ثابت نہ کی جا سکے تو وہ جائز ہے. اس میں آپ pick and choose کر سکتے ہیں‘ اکثریت (majority) سے بھی قانون بنا سکتے ہیں ‘اس میں کوئی حرج نہیں ہے. آپ نے دو جائز و حلالچیزوں میں سے ایک کو اختیار کرنا ہے تو آپ ریفرنڈم کرا لیں‘ ووٹنگ کرالیں یا کوئی اور طریقہ اختیار کرلیں‘اس میں کوئی حرج نہیں ہے. اس کے لیے میں سادہ سی مثال دیا کرتا ہوں کہ فرض کیجیے آپ کو اپنے گھر میں دعوتِ افطار کا اہتمام کرنا ہے‘ اب اس میں مشروب کون سا پیش کیا جائے اس کے بارے میں مختلف آراء سامنے آسکتی ہیں شراب تو سرے سے زیر بحث نہیں آ سکتی‘ اس لیے کہ وہ تو کتاب و سنت کی رو سے حرام ہے باقی سیون اپ ‘ روح افزا یا کوئی اور شربت ووٹنگ کے ذریعے منتخب ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ‘اس لیے کہ یہ تمام حلال مشروبات ہیں.لہٰذا مشتبہات کے حوالے سے دونوں پہلو سامنے رکھیے. زیر مطالعہ حدیث میں اس حوالے سے تقویٰ کا پہلو بیان ہوا کہ جو مشتبہات ہیں ‘جن کے بارے میں ّتیقن کے ساتھ کہنا مشکل ہے کہ حلال ہے یا حرام ہے تو اس سے بچو ! 

آگے آپ نے فرمایا:
 فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُھَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ ’’پس جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کر لیا‘‘.یہ انفرادی سطح پر تقویٰ کا طرزِعمل ہو گا کہ جو چیز بھی مشتبہ ہے اس کو آپ ترک کر دیں اور اس کو اختیار نہ کریں. وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الْحَرَامِ ’’اور جو ان مشتبہ چیزوں کے اندر پڑ گیا‘ وہ حرام میں بھی پڑ جائے گا‘ ‘. یعنی ابھی تو ایک مشتبہ چیز کا مسئلہ تھا‘ لیکن آگے انسان کے اندر اُس کی نفسانیت ‘ حیوانیت ‘ بہیمیت اوراس کے نفسانی تقاضے جب بڑھیں گے تو پھر وہ حرام تک پہنچ جائے گا. جیسے آپ پنجابی میں کہتے ہیں ’’جھاکا کھل گیا‘‘ یعنی جھجک اگر ختم ہو گئی تو گویا اس کا بھی اندیشہ ہے کہ مشتبہ امور کو استعمال کرتے کرتے آپ حرام کے اندر بھی منہ ما رنے لگیں. 

حرام کے قریب جانے کی بھی ممانعت

آگے آپ نے اس بات کو ایک مثال سے سمجھایا: کَالرَّاعِی یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ اَنْ یَّرْتَعَ فِیْہِ ’’جیسا کہ کوئی چرواہا (کسی ممنوعہ) چراگاہ کے آس پاس جانوروں کو چرائے تو ہو سکتا ہے کہ جانور چراگاہ میں جا پہنچیں ‘‘. حِمیٰ کہتے ہیں محفوظ چراگاہ کو.یعنی کسی بادشاہ ‘جاگیردار یا وڈیرے نے اپنے چوپاؤں‘ مثلاً گائیں‘ بھینسوں‘بھیڑ بکریوں‘ اونٹ اور گھوڑوں وغیرہ کے لیے ایک خاص علاقے کو محفوظ کر لیاہو کہ یہاں صرف ان کے جانور چریں گے اور اس میں عوام کا کوئی جانور داخل نہیں ہو گا‘ تو وہ اس کی حِمٰی ہے.اب اگر کوئی چرواہا اس طرح کی کسی محفوظ اور مخصوص چراگاہ کے قریب اپنا ریوڑ چرارہا ہو گا تو اس کا اندیشہ ہے کہ اس ریوڑ کے چند جانور اس چراگاہ میں گھس جائیں اور وہاں چرنے لگیں. اس طرح یہ چرواہا شاہی مجرم قرار پائے گا اور اس پر اسے سزا بھی ہو سکتی ہے‘ لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس سے دُور دُور رہو‘ Keep at a safe distance . بالکل یہی معاملہ مشتبہات کے بارے میں ہے کہ ان سے دُور رہا جائے ‘کہیں یہ نہ ہو کہ آپ بالکل حرام کی سرحد پر پہنچ جائیں. اور اگر آپ سرحد پر پہنچ گئے تو ہو سکتا ہے کسی وقت آپ جذبات کی رو میں بہہ کراس سرحدکو عبور کر کے حرام میں پہنچ جائیں.

یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم کا اسلوب یہ ہے کہ وہ حرام کے قریب جانے سے بھی 
روکتا ہے چہ جائیکہ حرام کا ارتکاب کیا جائے. آپ دیکھئے کہ قرآن مجید میں نہ تو زنا کے بارے میں کہیں آیا ہے : لاَ تَزْنُوْا یعنی ’’زنا نہ کرو ‘‘اور نہ ہی کہیں شراب کے بارے میں حرام کا لفظ استعمال کیا گیاہے. اسی کو بنیاد بنا کر ہمارے ملک کے ایک دانشورکہتے ہیں کہ قرآن مجید میں شراب کے لیے حرام کا لفظ کہیں نہیں آیا‘ اس لیے یہ حرام نہیں ہے. میں ان سے کہتا ہوں کہ اللہ کے بندے! عقل کے ناخن لو. جب شراب اور جوئے کے لیے ایسے ایسے سخت الفاظ آئے ہیں : رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ ’’یہ شیطانی عمل میں سے گندے ترین اعمال ہیں ‘ پس ان سے دور رہو‘‘. تو حرام کا لفظ ان سے زیادہ سخت تو نہیں ہے. آگے فرمایا: فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّنۡتَہُوۡنَ ﴿۹۱﴾ ’’پھر تم باز آتے ہوکہ نہیں؟‘‘ یہ غصے کا انداز کیوں اختیار کیا گیا؟اس لیے کہ اس سے پہلے مرحلہ وار احکام دیے جا چکے تھے. بہت پہلے تم سے کہہ دیا گیا تھا: فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۫ وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا ؕ (البقرۃ:۲۱۹کہ شراب اور جوئے میں اگرچہ کچھ منفعت کے پہلو بھی ہیں ‘لیکن ان میں گناہ کا پہلو نفع کے پہلو سے زیادہ ہے. جب یہ پہلا حکم آیا تھا تو تمہیں اُسی وقت ان دونوں کو چھوڑ دینا چاہیے تھا . تقویٰ کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اسی وقت چھوڑ دیتے بہت سے صحابہ کرامؓ نے اسی وقت شراب چھوڑ دی تھی پھر ہم نے تمہیں ایک اور وارننگ دی تھی: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی (النسائ:۴۳’’اے ایمان والو! جب شراب کے نشے میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ ‘‘. تو اس سے بھی تمہیں معلوم ہوجانا چاہیے تھا کہ ان احکام میں شراب اور جوئے کی حرمت کی طرف اشارہ ہے‘ لیکن اس کے باوجود چند لوگ پھر بھی باز نہ آئے تو پھر سورۃ المائدۃ میں تیسرا اور آخری حکم آیا جس میں بہت سخت الفاظ وارد ہوئے: فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّنۡتَہُوۡنَ ﴿۹۱﴾ ’’اب بھی باز آتے ہو کہ نہیں؟‘‘ اب ان سارے سخت ترین الفاظ کو پس پشت ڈال کر ایک دانشور کہہ رہے ہیں کہ قرآن میں شراب کے لیے کہیں حرام کا لفظ نہیں آیا اس لیے شراب حرام نہیں ہے. ایک ملاقات میں ‘میں نے ان سے کہا تھا کہ حرام کا لفظ تو زنا کے لیے بھی نہیں آیا تو اس کے جواز کا بھی فتویٰ دے دیجیے ! دراصل قرآن حکیم کا اسلوب یہ ہے کہ وہ حرام کے قریب جانے سے بھی روکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ زنا کے حوالے سے قرآن نے فرمایا: وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی (بنی اسرائیل:۳۲’’اورزنا کے قریب بھی نہ پھٹکو‘‘. یعنی زنا تک جانا تو بہت دور کی بات ہے ایسے اعمال تک بھی نہ جاؤ جو زنا تک لے جانے کا باعث بنتے ہیں. چنانچہ اسی مقصد کے لیے ہمارا سارا عائلی نظام ہے‘ پردہ ہے ‘مخالف جنسوں میں تفریق (seggregation of sexes) ہے کہ مخلوط معاشرہ نہ ہو‘ لڑکوں کے تعلیمی ادارے علیحدہ ہوں اورلڑکیوں کے علیحدہ. عورتوں کے ہسپتال علیحدہ ہوں جہاں عورتیں مریض ‘عورتیں ڈاکٹراورعورتیں ہی نرس ہوں‘ جبکہ مردوں کے ہسپتالوں میں مرد مریض‘ مرد ڈاکٹر اور مرد ہی نرس ہونے چاہئیں. مردوں کے ہسپتالوں میں کوئی عورت نہ تو ڈاکٹر ہو اور نہ ہی نرس.یہ سراسرشریعت کے خلاف ہے‘ اور پھر جو کچھ وہاں ہوتا ہے وہ آپ سب کو معلوم ہے‘ کون نہیں جانتا. یہ سب وہ اعمال ہیں جو زنا تک لے جانے کا باعث بن سکتے ہیں ‘اس لیے ان سب سے منع کر دیا گیا.یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں جابجا فرمایا گیا: تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ فَلَا تَعۡتَدُوۡہَا ۚ ’’یہ اللہ کی حدود ہیں‘ ان سے تجاوز مت کرو‘‘. تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ فَلَا تَقۡرَبُوۡہَا ؕ ’’یہ اللہ کی حدود ہیں‘ ان کے قریب بھی مت جانا‘‘. تو زیر مطالعہ حدیث میں بھی فرمایاکہ ان مشتبہات کے قریب بھی نہ جاؤ‘ ہو سکتا ہے تم حرام میں پڑ جاؤ. 

اللہ کی مخصوص و محفوظ چراگاہ ’’محرمات‘‘ہیں!

اس کے بعد آپ نے فرمایا: اَلاَ وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی‘ اَلاَ وَاِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہٗ ’’آگاہ ہو جاؤ کہ ہر بادشاہ کی ایک محفوظ اور مخصوص چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی مخصوص چراگاہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء ہیں‘‘.تو جیسے کسی محفوظ چراگاہ کے قریب اپنے ریوڑ کو لے جانے والا ہمیشہ اس خطرے میں رہے گا کہ اس کی بھیڑبکریاں چھلانگ لگائیں اور اس محفوظ چراگاہ میں چلی جائیں اور اس طرح یہ سزاکا مستحق ٹھہرے گا‘ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی محرمات ہیں‘ لہٰذا ان کے قریب بھی مت جاؤ‘ مبادا کہ تم ان میں مشغول ہو جاؤ! نبی مکرم کے یہ الفاظ جوامع الکلم میں سے ہیں. حضورنے ایک موقع پر فرمایا : اَنَا اَفْصَحُ الْعَرَبِ ’’میں عرب کا فصیح ترین انسان ہوں‘‘. یہ بالکل صحیح ہے‘ اس لیے کہ فصیح ترین عربی قرآن کی ہے اور اس کے بعد حضور کی. اسی طرح آپ نے فرمایا: بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْکَلَمِ (متفق علیہ) ’’مجھے جوامع الکلم کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے‘‘.جوامع الکلم کہتے ہیں بڑی جامع باتیں‘ یعنی چھوٹے چھوٹے جملے مگر مفہوم کے حوالے سے وسیع تر. مثلاً روزہ کے بارے میں آپ نے فرمایا: اَلصَّوْمُ جُنَّــۃٌ (متفق علیہ) ’’روزہ ڈھال ہے‘‘.اس کا مفہوم یہ ہے کہ جیسے ڈھال کے ذریعے اپنے آپ کو تلوار سے بچاتے ہو اسی طرح نفس کے حملوں سے بچانے کے لیے روزہ بھی ایک ڈھال ہے. تمہارا جو نفس امارہ ہے ‘تمہارا جو id اور libido ہے ‘ تمہارے جو جوانی کے تقاضے اور حیوانی جبلتیں ہیں‘ ان سب کے خلاف تم اپنے آپ کو روزے کے ذریعے بچا سکتے ہو. اپنی انا کو‘ اپنی خودی کو اور اپنی روح کو نفس کی ظلمانیت سے بچانا ’’اَلصَّوْمُ جُنَّــۃٌ‘‘ کے مفہوم میں شامل ہے زیر مطالعہ حدیث کے اگلے کلمات بھی جوامع الکلم میں سے ہیں ‘ان میں وسیع مفہوم پوشیدہ ہے. 

قلب اور اصلاحِ قلب کی اہمیت

آپ نے مزید فرمایا: اَلاَ وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ ’’آگاہ ہو جاؤ کہ جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے ‘جب وہ درست ہوتا ہے تو پورے کا پورا جسم درست ہو تا ہے‘‘ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ ’’اور جب اس میں کوئی خرابی (یا برائی) ہو تو پورا جسم برا ہو جاتا ہے‘‘. اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ آگاہ ہو جاؤ کہ وہ دل ہے!‘‘ یہ ہے وہ بات جو قرآن کے حکمت اور فلسفے کی ہے. یہ تین levels ہیں :نفس امارہ‘ قلب او روح. انہی کی نشاندہی فرائیڈ نے کی ہے اور اس حوالے سے میں اس کے مشاہدے کے ادراک (acquaintance of vision) کا قائل ہوں‘مگر اس کی تاویل اس نے غلط کی ہے. جہاں تک id‘libido اور پھر ego کی بات ہے تو وہ صحیح ہے‘لیکن super ego کو وہ بالکل سمجھ نہیں سکا. اس نے دیکھ لیا کہ خودی (ego) سے اوپر بھی انسان میں کوئی اور شے ہے ‘ لیکن وہ پہچان نہیں پایا کہ وہ کیا ہے؟ تو وہ روح ہے. اب ہوتا یہ ہے کہ یا توانسان کے قلب کا رخ روح کی طرف ہوتا ہے ‘اس اعتبار سے قلب ایک آئینہ کی مانند ہوتاہے‘ بایں معنی کہ روح کی ساری تجلیات اور انوارات اس میں منعکس ہو جائیں گے اور پورا وجود منور ہو جائے گا. یا دوسری صورت یہ ہے کہ قلب کا رخ نفس امارہ کی طرف ہو جائے گا تو نفس امارہ کی ساری ظلمات‘ تاریکیاں اس میں منعکس ہو جائیں گی اور سارا جسم خراب ہو جائے گا. 

اب خاص طور پر دلچسپی کی بات یہ ہے کہ قلب کا مادہ ق ل ب ہے جس کے معنی بدلنے کے ہیں. چنانچہ قلب کو قلب اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ ہر وقت حرکت میں رہتا ہے. لفظ انقلاب بھی اسی سے بنا ہے بمعنی بدل جانا. قرآن حکیم میں الفاظ آئے ہیں: 
وَ قَلَّبُوۡا لَکَ الۡاُمُوۡرَ (التوبۃ:۴۸یعنی اے نبی ! یہ منافق آپ کے معاملات کو تلپٹ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں حضور کی اپنی ایک پلاننگ ہوتی تھی‘ لیکن منافق بیچ میں کوئی ایسا رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے تھے کہ وہ پلاننگ خراب ہو جائے. تو قلب کے معنی ہی یہی ہیں کہ اسے سکون نہیں ہے‘ وہ ہر وقت حرکت میں ے . آپ کے پورے جسم میں ہر عضو کے لیے آرام کا وقت ہوتا ہے. آپ کے دماغ کو بھی آرام کی ضرورت ہے . آپ سوتے ہیں تو دماغ آرام کرتا ہے یہ اوربات ہے کہ دماغ کو آرام کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنا ہم سوتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ آپ سو رہے ہوتے ہیں لیکن دماغ جاگ کراپنا کام شرو ع کر دیتا ہے اور پھر خواب بھی اسی کیفیت میں آتے ہیں . دوسری طرف قلب یعنی دل ہمارے جسم کا ایسا عضو ہے جس کے لیے نہ کوئی آرام ہے اور نہ کوئی چین ‘اور نہ ہی یہ ایک حالت میں رہتا ہے‘کبھی پھیل رہا ہے کبھی سکڑ رہا ہے.اب اگر یہ دل یکسو ہو کر مستقل طو رپر روح کی طرف رخ کرلے توروح کی تجلیات روح کا تعلق چونکہ امر ربی سے ہے اس لیے وہ ربانی تجلیات پورے وجود میں سرایت کر جائیں گی. اس کیفیت کا نام ہے ’’نفس مطمئنہ‘‘. جس کے بارے میں قرآن کریم میں فرمایا گیا: یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿٪۳۰﴾ ’’اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل‘ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی. تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا اور میری بہشت میں داخل ہو جا‘‘.(اللہ تعالیٰ ہم سب کو وہ نفس مطمئنہ عطا کرے‘ آمین!). لیکن اگر خدانخواستہ قلب کا مستقل رخ نفس امارہ کی طرف ہو جائے تویہ وہ کیفیت ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا: اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (یوسف:۵۳’’بے شک نفس انسان کو برائی پر ہی اکساتا رہتا ہے‘‘. اس کے علاوہ کچھ لوگوں کا قلب ڈانواں ڈول رہتا ہے ‘اس کو ’’نفس لوامہ‘‘ کہتے ہیں .یعنی اگر کوئی اچھا کام کیا تو اندر سے شاباش ملتی ہے کہ تم نے ٹھیک کیا ہے اور اگر کوئی برا کام کیا تو روح ملامت کرتی ہے .اس کیفیت کو سورۃالتوبہ میں بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے : خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا ؕ (آیت ۱۰۲’’(کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں )جو خلط ملط کر لیتے ہیں اچھے کاموں کے ساتھ دوسرے برے کام بھی.‘‘ 

مشتبہات اور سود کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل

اسی حدیث کے حوالے سے میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں. دیکھئے بعض معاملات ایسے تھے جن کا حکم حضور کی حیاتِ طیبہ کے آخری دنوں میں آیا ہے .اس زمانے میں آپ کو معلوم ہے کہ بات کو آگے تک پہنچانے کے ذرائع محدود تھے. اُس وقت نشریاتی چینلز تو تھے نہیں کہ اعلان ہو جاتا کہ آج سے یہ حکم نافذ العمل ہو گااور اس طرح پورے ملک میں وہ حکم نامہ پہنچ جاتا.اس تناظر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے.حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: 

اِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ آیَۃُ الرِّبَا وَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ  قُبِضَ وَلَمْ یُفَسِّرْھَا‘ فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّیْبَۃَ 
(۱
’’ قرآن کریم میں سب سے آخری آیت سود سے متعلق نازل ہوئی تھی اور رسول اللہ کو اپنے انتقال سے قبل اس کی مکمل وضاحت کا موقع نہیں مل سکا. اس 
(۱) مسند احمد‘ کتاب مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ‘ باب اول مسند عمر بن الخطابؓ . لیے سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں ذرا بھی شک ہو اسے بھی چھوڑ دو.‘‘

٭ 
سود کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل ہمارے سامنے ہے ‘مگر مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے .ہمارا تو سارا معاشی نظام ہی سودی بینکاری کے گرد گھومتا ہے‘ جبکہ سودی بینکاری کا یہ نظام یہودیوں کے بدمعاش ترین ذہن کی پیداوار ہے. اقبال نے کہا تھا ؎

ایں بنوک ایں فکر چالاکِ یہود نورِ حق از سینہ ٔآدم ربود
تا تہ و بالا نہ گردد ایں نظام دانش و تہذیب و دیں سودائے خام!

یعنی یہ بینک تو یہودیوں کی عیارانہ فکر کی پیداوار ہے جس نے سینہ ٔآد م کے اندر جو روحانیت کا نورتھا اس کو نکال کر دور پھینک دیا اور انسان کو درندہ اور حیوان بنا دیاہے. اب اس نظام کی اصلاح اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ سارا نظام تہ و بالا نہیں ہو گا‘ تلپٹ نہیں کیا جائے گا . اس لیے کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے کہاں کی دانش ‘ کہاں کی تہذیب‘ کہاں کا دین!یعنی کسی بھی چیز کا کوئی امکان نہیں.

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو پہچاننے اوراپنی انفرادی زندگیوں میں ہر طرح سے مشتبہات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین یا ربّ العالمین! 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات 
٭ سنن دارمی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مذکورہ فرمان یوں بیان ہواہے: 
یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا لَا نَدْرِیْ لَعَلَّنَا نَأْ مُرُکُمْ بِاَشْیَائَ لَا تَحِلُّ لَکُمْ وَ لَعَلَّنَا نُحَرِّمُ عَلَیْکُمْ اَشْیَائَ ھِیَ لَکُمْ حَلَالٌ اِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ آیَۃُ الرِّبَا وَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ  لَمْ یُبَیِّنْھَا لَنَا حَتّٰی مَاتَ فَدَعُوا مَا یَرِیْبُکُمْ اِلٰی مَا لاَ یَرِیْبُکُمْ (سنن الدارمی) 

’’ اے لوگو! بے شک ہم نہیں جانتے ‘ہوسکتا ہے ہم تمہیں ایسی شے کا حکم دیں جو تمہارے لیے حلال نہ ہو اور شاید ہم تم پر ایسی اشیاء کو حرام قرار دے دیں جو درحقیقت تمہارے لیے حلال ہوں قرآن میں سب سے آخر میں سود سے متعلق آیت نازل ہوئی تھی اور رسول اللہ  نے ابھی ہمارے سامنے اس کی وضاحت نہیں کی تھی کہ آپؐ کا وصال ہوگیا .اس لیے جو چیز تمہیں شک میں مبتلا کرے اسے چھوڑ کر اسے اختیار کرو جو تمہیں شک میں مبتلا نہ کرے.‘‘
(اضافہ از مرتب)