تیسرا حق:مخلصانہ مشورہ: وَاِذَا اسْتَنْصَحَکَ فَانْصَحْ لَہٗ ’’جب وہ تم سے نصیحت (یا مخلصانہ مشورہ) کا طالب ہو تو اسے اچھا مشورہ دو ‘‘. دیکھئے صحیح مشورہ دینا امراء کے ساتھ خیر خواہی کا تقاضا بھی ہے اور عوام کے ساتھ خیر خواہی کا تقاضا بھی .
چوتھا حق:چھینک آنے پر دعا دینا: وَاِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللّٰہَ فَشَمِّتْہُ ’’جب اس کو چھینک آئے اور وہ الحَمد لِلّٰہ کہے تو تم (یَرْحَمُکَ اللّٰہ کے ساتھ) اسے جواب دو‘‘.چھینک آنے پر اس کے لیے دعا کرنا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے یہ اس کا حق ہے.ظاہر بات ہے کہ ناک کے اندر کوئی irritation ہوتی ہے تو چھینک آتی اور یہ زکام کا آغاز بھی ہو سکتا ہے. لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ آپ اسے کہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحمت فرمائے. اس پر مزید یہ بھی آتا ہے کہ پھر وہ شخص کہے : یَھْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَـکُمْ ’’اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے کام سنوارے.‘‘
پانچواں اور چھٹا حق:عیادت کرنا اور جنازے میں جانا: وَاِذَا مَرِضَ فَعُدْہُ ’’جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو‘‘.چھٹا حق یہ ہے کہ: وَاِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْہُ ’’اورجب وہ انتقال کر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ .‘‘
سنن الترمذی (۱) کی ایک روایت میں ساتواں حق یہ بھی بیان ہوا ہے : وَیُحِبُّ لَہٗ مَا یُحِبَّ لِنَفْسِہٖ ’’اور اس کے لیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘. اس آخری بات کو یوں سمجھئے کہ ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘ کے مصداق بہت جامع بات ہے.یہ بھی درحقیقت جوامع الکلم میں سے ہے.
امرباالمعروف ونہی عن المنکراور مثبت تنقید: ان حقوق کے علاوہ عوام کے ساتھ خیرخواہی کے اور بھی تقاضے ہیں‘ مثلاً امر بالمعروف ونہی عن المنکر عوام کا بھی حق ہیں یعنی انہیں بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا. اس طرح ان پر مثبت تنقید کرنا بھی ان کے ساتھ خیر خواہی کا تقاضا ہے. سیاسی آدمی کوتو چونکہ ووٹ چاہیے اس لیے وہ عوام پر تنقید نہیں کر سکتا. وہ تو کہے گا کہ ساری خرابی کی جڑ اوپر بیٹھا ہوا حکمران طبقہ ہے .گویا باقی سب پاک صاف ہیں اور عوام کے اندر تو کوئی خرابی ہے ہی نہیں. عوام کے سامنے کھڑے ہو کر ان پر تنقید کرنا بڑی ہمت کی بات ہوتی ہے. لیکن وہاں بھی وہی اصول رہے گا کہ یہ تنقید خیر خواہی کے جذبے کے تحت ہو نہ کہ کسی مقصد کے حصول کے لیے.
نہی عن المنکر کے حوالے سے یاد رکھیں کہ اگر کوئی آپ کے مسلسل منع کرنے کے باوجود برائی سے باز نہیں آتا تو آپ اس کے ساتھ عدم اختلاط کریں‘یعنی اس کے ساتھ (۱)سنن الترمذی‘ ابواب الادب‘باب ماجاء فی تشمیت العاطس. اٹھنا بیٹھنا‘ کھانا پینا سب ترک کر دیں. اس لیے کہ اگر آپ ان معاملات میں شریک رہیں گے تو پھر آپ کی ساری محنت ضائع ہو جائے گی ایک حدیث میں بنی اسرائیل کی خرابیوں کے تذکرہ میں اُن کی ایک بڑی خرابی یوں بیان کی گئی ہے کہ ان کے علماء ان کی برائیوں پر تنقید تو کرتے تھے‘ لیکن اُن کے ساتھ کھانا پینا‘ اٹھنا بیٹھنا بھی چلتا رہتا تھادعائے قنوت میں بھی ہم یہ اقرار کرتے ہیں : وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُک ’’اور ہم ان سے علیحدہ ہوتے ہیں اور ان سے ترکِ تعلق کرتے ہیں جو تیرے احکام کی دھجیاں بکھیرتے ہیں.‘‘
طاغوتی نظام سے نجات دلانا : عوام کی خیر خواہی کے حوالے سے آخری بات وہی ہے جو میں قبل ازیں بیان کر چکا ہوں کہ عوام کواس طاغوتی نظام اور معاشی بوجھوں سے نجات دلائی جائے. اس وقت دنیا میں جو غلط معاشی نظام قائم ہیں‘ جن کی وجہ سے عوام چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں‘ اس نظام کو بدلو تاکہ تقسیم دولت کا منصفانہ نظام قائم ہو .یہ کیا ہے کہ امیر ‘امیر سے امیر تر اور غریب‘ غریب سے غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے. اس نظام کو بدلنے کی کوشش کرنا اور انہیں مستبد اور ظالم حکمرانوں سے نجات دلانا عوام کا حق ہے. یہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ یہ دو طرفہ حق ہے‘ ائمہ کا بھی اور عوام کا بھی.
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃ کے تمام پہلوؤں پر مکمل طور پر پورا اترنے اور ماقبل بیان کردہ پانچ اعتبارات سے مکمل طور پر مخلص و وفادار ہونے کی توفیق عطا فرمائے. آمین یا رب‘ العالمین!
اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات