۱۶/نومبر۲۰۰۷ء کے خطبہ جمعہ کا بقیہ حصہ
خطبہ ٔمسنونہ کے بعد: 

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ 
(الحشر:۷
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ صَخْرٍ ص قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ  یَقُوْلُ : 

مَا نَھَیْتُـکُمْ عَنْہُ فَاجْتَنِبُوْہُ ‘ وَمَا اَمَرْتُکُمْ بِہٖ فَافْعَلُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘ فَاِنَّمَا اَھْلَکَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کَثْرَۃُ مَسَائِلِھِمْ وَاخْتِلَافُھُمْ عَلٰی اَنْبِیَائِھِمْ (۱

سیدنا ابوہریرہ عبدالرحمن بن صخر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا:

’’میں تمہیں جس کام سے منع کروں اس سے باز رہو اور جس کام کا حکم دوں اسے بقدر استطاعت بجا لاؤ تم سے پہلے لوگوں کو ان کے کثرتِ سوالات اور انبیاء سے حجت بازی نے ہلاک کر ڈالا تھا.‘‘

معزز سامعین کرام!
یہ امام یحییٰ بن شرف الدین النووی رحمہ اللہ علیہ کے شہرۂ آفاق مجموعہ احادیث ’’اربعین نووی‘‘ کی حدیث ۹ہے. اس حدیث میں مذکور مضمون اس سے پہلے حدیث ۴ میں بھی 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘ باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰہ . وصحیح مسلم‘ کتاب الفضائل‘ باب توقیرہ وترک اکثار سؤالہ… واللفظ لہ. ہم پڑھ چکے ہیں‘ جس میں رسول اللہ نے فرمایا : اِنَّ الْحَلَالَ بَـیِّنٌ ‘ وَاِنَّ الْحَرَامَ بَـیِّنٌ ‘ وَبَیْنَھُمَا اُمُوْرٌ مُشْتَبِھَاتٌ لَا یَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ ’ ’حلال بالکل واضح ہے اور حرام بھی بالکل واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کے (شرعی حکم) کے بارے میں لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی‘‘یعنی حلال و حرام کے علاوہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں انسان شک میں پڑ جاتا ہے کہ پتا نہیں یہ شے حلال ہے یا نہیں ان مشتبہ چیزوں کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا: فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُھَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ ‘ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الْحَرَامِ ’’پس جو شخص اس قسم کی غیر واضح اشیاء سے بچ گیا اُس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو شخص اس قسم کے مشتبہ امور کو اختیار کرنے لگے تووہ حرام میں جا پڑے گا ‘‘ اس حدیث کے ضمن میں ‘میںعرض کر چکا ہوں کہ جس شے کو کتاب و سنت کے دلائل اور نصوص سے حرام ثابت نہ کیا جا سکے ‘ وہ قانوناً حلال ہے . اصول یہ نہیں ہے کہ جس شے کو حلال ثابت نہ کیاجا سکے وہ حرام ہے.اگر ایسا ہوتا تو حلال کا دائرہ بہت محدود ہو جاتا.لہٰذا جو چیز ازروئے قرآن و سنت حرام ثابت نہیں ہوتی تو وہ قانوناًحلال اور جائز ہے. لیکن اگر کوئی چیز ایسی ہے جس کا شرعی حکم واضح نہیں ہے تو اس کے بارے میں تقویٰ کا پہلو یہ ہے کہ اپنے دین کو بچانے کے لیے ان مشتبہات سے بھی بچا جائے.
زیر مطالعہ حدیث میں یہی بات بیان کی جا رہی ہے. اس روایت کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں یہاں ان کی کنیت کے ساتھ ان کا نام عبدالرحمن بن صخر بھی مذکور ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : 
مَا نَھَیْتُـکُمْ عَنْہُ فَاجْتَنِبُوْہُ ’’جس کام سے میں نے تمہیں روک دیا ہے اس سے بچو‘‘ وَمَا اَمَرْتُکُمْ بِہٖ‘ فَافْعَلُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ ’’اور جس کام کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں اپنے مقدور بھر اس پر عمل کرو‘‘ بعینہٖ یہ مضمون سورۃ الحشر کی آیت ۷ میں بایں الفاظ آیا ہے : وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ ’’اور جو چیز تم کو پیغمبرؐ دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو‘‘آگے حضور اکرم نے اوامر و نواہی کے سلسلے میں مین میخ نکالنے اور بال کی کھال اتارنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا: فَاِنَّمَا اَھْلَکَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کَثْرَۃُ مَسَائِلِھِمْ وَاخْتِلَافُھُمْ عَلٰی اَنْبِیَائِھِم ’’(یہ یاد رکھو کہ) تم سے پہلی قوموں کو اس چیز نے ہلاک کیا کہ وہ بہت سوال کرتے تھے اور اپنے انبیاء سے حجت بازی کرتے تھے.‘‘ 

یہاں دو چیزوں سے روکا گیا ہے : (۱) کثرتِ سوال‘ اور (۲) انبیاء سے حجت بازی. کثرتِ سوال کے حوالے سے اقوامِ سابقہ کا معاملہ یہ تھا کہ ان کے نبیؐ جب بھی کوئی حکم دیتے تو وہ کہتے : حضرت !اگر اس طرح ہو جائے تو کیا ہوگا اور اگر یوں ہو جائے گا تو پھر کیا ہو گا؟ اس طرح کے بے تکے سوالات سے روکا گیاہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اللہ اور اس کے رسول نے بات کھلی چھوڑی ہے اور تمہیں ایک آزادی دے رکھی ہے تو تم یوں سوالات کر کے لوگوں کے لیے دین کادائرہ تنگ کرا لو گے. جیسا کہ ایک بڑی مشہور حدیث ہے. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا:
 یَا اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحَجُّوْا ’’اے لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے‘ پس تم حج کرو‘‘. ایک شخص نے کہا: یارسول اللہ! کیا یہ ہر سال فرض ہے؟ آپؐ خاموش رہے. اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا تو تیسری بار آپؐ نے فرمایا: لَــوْقُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَمَّا اسْتَطَعْتُمْ (۱’’اگر میں ہاں کہہ دیتا تو پھر حج ہر سال فرض ہو جاتا خواہ تم اس کی طاقت نہ رکھتے‘‘.بعض روایات میں تو یہاں تک آتا ہے کہ جب اس شخص نے سوال کیا تو نبی اکرم نے ادھر سے رخ پھیر لیا. وہ گھوم کر اُدھر آگیا اور پھر وہی سوال دہرایا. حضور نے اس بار بھی کوئی جواب نہیں دیااور خاموش رہے‘ لیکن جب اس نے تیسری مرتبہ وہی سوال دہرایا تو آپؐ نے اسے ڈانٹ دیا اور فرمایا کہ اگر میں ہاں کہہ دوں تو یہ تم پر ہر سال فرض ہو جائے گا اور تم اس کی طاقت بھی نہیں رکھتے. لہٰذا تم اس طرح کے سوالات کر کے شریعت کا دائرہ تنگ کیوں کر دیناچاہتے ہو جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وسیع رکھا ہے. چنانچہ پوری (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الحج‘ باب فرض الحج مرۃ فی العمر. زندگی میں شرعاً ایک ہی مرتبہ حج فرض ہے اور اگر کسی کے لیے ہر سال حج کرنا ممکن ہو تو وہ ہر سال حج کرے. 

اصل میں کچھ لوگوں کا ذوق اور مزاج ایسا ہوتا ہے کہ وہ تکلف اور تقشف کرتے ہیں. ایک صاحب نے اس کے لیے ’’تقویٰ کا ہیضہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے . ہونا یہ چاہیے کہ جو شے کھلی حرام ہے اس سے بچو اور جو مشتبہ چیزیں ہیں ان کے بارے میں اپنے دل سے پوچھ کر فیصلہ کرو. جیسے ایک شخص نے رسول اللہ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: 
اِسْتَفْتِ نَفْسَکَ‘ اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ ’’تم اپنے نفس سے پوچھو‘ تم اپنے دل سے پوچھو!‘‘ اور پھر آخر میں فرمایا: وَاِنْ اَفْتَاکَ النَّاسُ وَاَفْتَوْکَ (۱’’اگرچہ لوگ اس کے بارے میں تمہیں کچھ بھی فتویٰ دیں‘‘. یعنی اگر کوئی مفتی کہہ دے کہ یہ جائز ہے‘ لیکن تمہارا دل اس پر مطمئن نہ ہو تو تم اسے چھوڑو‘ اس لیے کہ اللہ کا ایک مفتی‘ جو تمہارے جسم میں دل کی صورت میں موجود ہے‘ وہ اس کے خلاف فتویٰ دے رہا ہے.

اس ضمن میں نور الدین زندگی کے بیٹے کا واقعہ بھی میں آپ کو سنا چکا ہوں کہ تمام مکاتب فکر کے مفتیوں کے فتوے آ گئے کہ جان بچانے کے لیے شراب پی جا سکتی ہے ‘ لیکن نور الدین زندگی کے تقویٰ کا عالم ملاحظہ ہو کہ فتویٰ آ جانے کے بعد بھی اس کو تسلی نہ ہوئی .اس نے مفتیانِ کرام کو بلایا اور کہا: اگر اللہ میرے بیٹے کو شفا دینا چاہے تو کیا وہ شراب کا محتاج ہے؟ انہوں نے کہا :نہیں! اور اگر اللہ کی مشیت میں میرے بیٹے کی موت کا وقت آ گیا ہے تو کیا شراب اسے بچا لے گی؟ انہوں نے کہا :نہیں! اُس اللہ کے بندے نے کہا :اپنے یہ فتوے اپنے پاس رکھو!چنانچہ اس نے اپنے بیٹے کی قربانی دے دی مگر اسے شراب نہیں پلوائی. یہ تو تقویٰ کا انداز ہے کہ جب دل مطمئن نہیں ہے تو حرام شے کو جان بچانے کے لیے بھی استعمال نہیں کیا‘ جبکہ اس کے برعکس بعض لوگ تکلف اور تقشف کرتے ہیں. ان کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر تو ان کے ہاں فتوے 
(۱) سنن الدارمی‘ کتاب البیوع‘ باب دع ما یریبک الی ما یریبک. ہوتے ہیں اور بڑے بڑے صریحاً حرام کو وہ ھَنِیْئًا مَرِیْئًا کھائے جا رہے ہوتے ہیں. مثلاً کسی نے رفع یدین نہیں کیا تو اس کی نماز باطل ہونے کا فتویٰ فوراً صادر ہو جائے گا ‘ جبکہ سود کے بارے میں کوئی پروا نہیں ہے‘ تم بھی کھائو‘ میں بھی کھائوں گا‘ نہ میں تمہیں ٹوکوں گا اور نہ تم مجھے ٹوکو گے. آج کل ایسی ہی صورت حال ہے کہ ذرا سا اختلاف یا ذرا سا کوئی فرق سامنے آ جائے تو خاص مذہبی ذہنیت کے حامل لوگ یک دم آپے سے باہر ہو جاتے ہیں. اس حوالے سے حضرت مسیح علیہ السلام کا بہت ہی خوبصورت تبصرہ ہے . انہوں نے یہودی علماء سے یہ کہا تھا :’’اے فریسیو! تمہارا حال یہ ہے کہ تم مچھر چھانتے ہو اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہو‘‘. بعینہٖ یہی ہوتا ہے جب اس قسم کی ذہنیت پیدا ہوجاتی ہے.

دوسری بات جس سے آپ نے منع فرمایا‘وہ ہے : 
وَاخْتِلَافُھُمْ عَلَی الْاَنْبِیَائِمیرے نزدیک اس کا ترجمہ ’’انبیاء سے اختلاف‘‘ ذرا مناسب نہیں ہے ‘ جبکہ اس کا صحیح اور مناسب ترجمہ ’’انبیاء سے حجت بازی‘‘ کرنا ہے ‘یعنی سوال پر سوال کر کے حجت بازی کرنا اور شریعت کے دائرے کو محدود کراتے چلے جانا‘ اس سے روکا گیا ہے. یوں سمجھئے کہ ایک مسلمان جوحضور کے زمانے میں تھا اس کی فقہی معلومات ہمارے مفتیوں کے برابر نہیں ہو سکتیں. اس لیے کہ اس وقت تو اصل دین یہ تھا کہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے تن من دھن لگا دو اور نماز پڑھ لو. کبھی حضور کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا ہے تو کر لو اورکبھی دیکھا ہے کہ آپؐ نے رفع یدین نہیں کیا تو آپ بھی مت کرو‘ کوئی فرق واقع نہیں ہوتا ایک بدو صحابی دُور سے آئے اور انہوں نے حضور کو اس حال میں دیکھا کہ آپ ؐ نے گریبان کے بٹن بند نہیں کیے ہوئے تھے.انہوں نے ساری عمر اپنی قمیص کے بٹن بندنہیں کیے. ٹھیک ہے یہ اُن کا اپنا ذوق ہے کہ انہوں نے حضور کو اسی حال میں دیکھا اور عمر بھراسی پر عمل پیرا رہے‘ لیکن اس سے آگے بڑھ کر فروعی معاملات پر بحث و تمحیص اور پھر ان میں ایک دوسرے سے اختلاف لائق ِتحسین نہیں ‘بلکہ فتنہ پیدا کرنے والا رویہ ہے. ہمارے ہاں جو فقہی اختلاف اور اس میں جو شدت ہے وہ آج سے نہیں ہے‘ بلکہ یہ شدت تو ابتدا سے ہے.امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے دور کے غیر حنفی فقہاء امام صاحب سے اس درجے نفرت کرتے تھے کہ ان کا نام تک لینا پسند نہیں کرتے تھے. اس لیے ان کی کتابوںمیں اکثر آپ کو قَالَ رَجُلٌ کُوْفِیٌّ (ایک کوفی شخص نے کہا) کے الفاظ ملیں گے. بھئی ان کانام تو لیں اور اگر آپ ان کی بات رد کرنا چاہتے ہیں تو دلیل سے رد کریں. فقہی اختلاف کی یہ شدت ہمارے ہاں بہت جلدی پیدا ہو گئی تھی ‘جبکہ اب تو فرقہ پرستی اپنے عروج کو پہنچ گئی ہے کہ لوگ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ضال اور مضل ہونے کے فتوے ہیں ‘ کفر کے فتوے ہیں. اس ساری صورتحال کا سبب اوامر و نواہی میں مین میخ نکالنا ہے. 

اس حوالے سے درست رویہ یہ ہے کہ موٹی موٹی باتیں جن کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے ان پر عمل پیرا ہوا جائے اور جن چیزوں سے روک دیا ہے ان سے رک جایا جائے. باقی یہ کہ ان کے اندر بہت زیادہ مین میخ نکالنا‘ بال کی کھال اتارنا‘ بہت تفصیلات کے اندر جانا‘ درحقیقت یہ وہ چیزیں ہیں جس سے دین میں تنگی پیدا ہوتی ہے . سورۃ الاعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ (آیت ۱۵۷یعنی جب ہمارے نبی اُمی آئیں گے تو وہ لوگوں کو ان بوجھوں سے نجات دلائیں گے جوان کے کندھوں پر ہوں گے اور ان کی گردنوں میں جوطوق پڑے ہوں گے ان سے بھی نجات دلائیں گے.

یہودیوں میں قانون کے اندر باریک بینی اور مین میخ کی عادت بہت زیادہ تھی. یہی وجہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کا ایک شخص قتل ہوگیا تو اس کے قاتل کے بارے میں جاننے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک گائے قربان کرنے کا حکم دیا . لیکن انہوں نے اس گائے کے بارے میں سوال کر کے اور اس کی تفصیلات پوچھ کر اپنے لیے مشکلات پیدا کر لیں 
٭ . تو یہ ساری چیزیں وہ اَغلال اور بوجھ تھے جو لوگوں کے اوپر ڈال دیے گئے تھے . ٭ محترم ڈاکٹر صاحبؒ اس حوالے سے لکھتے ہیں:

’’ بنی اسرائیل میں عامیل نامی ایک شخص قتل ہو گیا تھا اور قاتل کا پتا نہیں چل رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے حکم دیا کہ یک گائے ذبح کرو اور اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا مردہ شخص کے جسم پر مارو تو وہ جی اُٹھے گا اور بتا دے گا کہ میرا قاتل کون ہے… بنی اسرائیل کو جب گائے ذبح کرنے کا حکم ملا تو ان کے دلوں میں جو بچھڑے کی محبت اور گائے کی تقدیس جڑ پکڑ چکی تھی اس کے باعث انہوں نے اس حکم سے کسی طرح سے بچ نکلنے کے لیے مین میخ نکالنی شروع کی اورطرح طرح کے سوال کرنے لگے کہ وہ کیسی گائے ہو؟ اس کا کیا رنگ ہو؟ کس طرح کی ہو؟ کس عمر کی ہو؟ بالآخر جب ہر طرف سے اُن کا گھیرائو ہو گیا اور سب چیزیں ان کے سامنے واضح کر دی گئیں تب انہوں نے چار و ناچار بادلِ نخواستہ اس حکم پر عمل کیا . ‘‘

(بیان القرآن‘ جلد اول‘ سورۃ البقرہ) 
اس ضمن میں ایک پتے کی بات اور بھی ہے‘ وہ یہ کہ علماء کو تو ’’باب الحیل‘‘ بھی معلوم ہے ‘یعنی ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ آتا ہے. مرتا توعام آدمی ہے ‘اس لیے کہ اُسے حیلے معلوم نہیں ہیں ‘جبکہ علماء تو اپنے لیے حیلے تلاش کر لیتے ہیں .اس کی مثال ملاحظہ کیجیے کہ دربارِ اکبری کے نورتن ابوالفضل اور فیضی کے بارے میں آتاہے کہ جب گیارہ مہینے گزر جاتے تو اپنا پورا مال اپنی بیویوں کے نام کر دیتے تاکہ ’’حولانِ حول‘‘ نہ ہو (یعنی مال پر پورا سال نہ گزرے) اور زکوٰۃ نہ دینی پڑے ‘اور پھر جب بیویوں کے قبضے میں گیارہ مہینے ہو جاتے تو وہ واپس اپنے شوہروں کے نام کر دیتیں. یہ حیلے بہانے کرنے والے وہ علماء ہیں جن میں سے ایک نے بے نقط تفسیر لکھی ہے ‘یعنی وہ قرآن کا اتنا بڑا عالم تھا کہ کوئی نقطے والا حرف اس تفسیر میں شامل نہیں کیا آپ کو معلوم ہے کہ بعض حروفِ تہجی مثلاً ب‘ ت ‘ث نقطے والے ہیں ‘جبکہ بعض مثلاً ح‘ د‘ ر‘ س وغیرہ بغیر نقطے والے ہیں‘ تو اس کی تفسیر میں کوئی نقطے والا حرف نہیں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس ایک طرف تو قرآن مجید کا وسیع علم تھا اور دوسری طرف لغت کا بھی وہ ماہر تھا. پھر یہی دونوں بھائی تھے جنہوں نے ّچٹے اَن پڑھ اکبر کو ’’دین الٰہی‘‘ کا سبق پڑھایا تھا‘ جیسے غلام احمد قادیانی کو جو کچھ پڑھایا ‘وہ حکیم نور الدین نے پڑھایا جو بہت بڑا ِاہل حدیث عالم تھا. ورنہ خود غلام احمد قادیانی کی اپنی کوئی علمی حیثیت نہیں تھی. بہرحال حضور اکرم نے ہمیں دین کی واضح تعلیمات پر عمل کرنے اور حجت بازی اور کثرتِ سوال سے منع فرمایا ہے. آپ نے فرمایا کہ جس چیز سے میں تمہیں روکوں اس سے باز آ جاؤ اور جس کام کا حکم دو تو اپنی استطاعت کے مطابق اس کے لیے کوشش کرو‘ اور اَحکامِ دین میں بلاوجہ مین میخ نہ نکالو‘ اس لیے کہ تم سے پہلے لوگ اپنے نبیوں سے بہت زیادہ سوال کرنے اور حجت بازی کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے. اللہ تعالیٰ ہمیں اس طرزِ عمل سے محفوظ رکھے.آمین! 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلماتoo