۴/جنوری۲۰۰۸ء کا خطبہ جمعہ 
خطبہ ٔمسنونہ کے بعد

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ 
(آل عمران) 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ ﴿۶﴾ 
(التحریم) 
عَنْ اَبِیْ مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ سِبْطِ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَرَیْحَانَتِہِ 
رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا . قَالَ : حَفِظْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ 

دَعْ مَا یَرِیْـبُکَ اِلٰی مَا لَا یَرِیْـبُکَ 
(۱

رسول اللہ کے نواسے اور آپ کی خوشبو ابومحمد سیدنا حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کا یہ فرمان حفظ کر رکھا ہے.

’’جو بات تمہیں شک میں مبتلا کر ے اسے ترک کر دو اور جس میں کوئی شک و شبہ نہ ہو اسے اختیار کرو.‘‘

(۱) سنن الترمذی‘ ابواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع‘باب منہ.قال ابوعیسیٰ ھٰذا حدیث حسن صحیح. وسسن النسائی‘کتاب الاشربۃ‘باب الحث علیٰ ترک الشبھات. عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  : 
مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ 
(۱
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: 

’’انسان کے حسن اسلام (یعنی اسلام کی خوبی) میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ان کاموں کو ترک کر دے جن کا کوئی فائدہ نہیں.‘‘

معزز سامعین کرام!
ان سلسلہ ہائے خطابات میں امام یحییٰ بن شرف النوویؒ کے شہرۂ آفاق مجموعہ احادیث ’’اربعین نووی‘‘ کا سلسلہ وار مطالعہ کرایا جا رہا ہے اور آج میں نے درسِ حدیث کے سلسلے کو آگے بڑھانا ہے اس سے قبل ’’اربعین نووی‘‘ کی دس احادیث ہم پڑھ چکے ہیں اور آج ان شاء اللہ اس نشست ہم حدیث نمبر ۱۱ اور ۱۲ کا مطالعہ کریں گے میرا معمول ہے کہ میں اکثر و بیشتر زیر مطالعہ حدیث سے متعلق کوئی قرآنی آیت ضرور تلاوت کرتا ہوں .آج میں نے جو آیات تلاوت کی ہیں ان کا مرکزی مضمون ہے :’’تقویٰ ‘‘. 

تقویٰ کے بارے میں قرآن کی تاکیدی آیت

تقویٰ کے بار ے میں میرے نزدیک قرآن مجید کی سب سے زیادہ گاڑھی اور تاکیدی آیت سورۂ آل عمران کی آیت ۱۰۲ ہے ‘جس میں فرمایا گیا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ ’’اے ایمان والو!(ایمان کے دعوے دارو!)اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اُس کے تقویٰ کا حق ہے ‘‘ اس آیت کے نازل ہونے پر اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پریشان ہو گئے کہ کون ہے جو اللہ کے تقویٰ کا حق اد اکر سکے گا‘ کون ہے جو اللہ کی عبادت اور اللہ کی معرفت کا حق ادا کرسکے گا‘ جبکہ حضور اکرم خود فرما رہے ہیں: مَا عَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ ’’اے رب! ہم تجھے پہچان نہیں پائے جیسا کہ تیرے پہچاننے کا حق تھا‘‘ وَمَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ ’’اور ہم تیری بندگی نہیں (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الزھد‘باب فیمن تکلم بکلمۃ یضحک بھا الناس. ومسند احمد‘ کتاب مسند اہل البیت‘باب حدیث الحسین بن علی.ح۱۶۴۶کر پائے جیسا کہ تیری بندگی کا حق تھا‘‘ایک طرف حضور اکرم کا یہ فرمان اور دوسری طرف سورۂ آل عمران کی مذکورہ آیت. تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا گھبرانا بجا تھا کہ جب نبی اکرم اللہ کی معرفت‘ عبادت او ر تقویٰ حق ادا نہ کر سکے تو پھر اللہ کے تقویٰ کا حق کون ادا کر سکتا ہے! 

میں بارہا عرض کر چکا ہوںکہ ہمارا قرآن کا پڑھنا‘ سننا کچھ اور طرح کا ہے‘ جبکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب قرآن پڑھتے یا سنتے تھے تو ان کا انداز کچھ اور ہوتا تھا . وہ قرآن کو پڑھتے اور سنتے ہوئے اپنے آپ کو تولتے رہتے تھے کہ ہم اس پر پورے اترسکتے ہیں یا نہیں! اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے پیش نظر ’’عمل‘‘ تھا .یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گھبرا گئے کہ اس آیت پر عمل کرنا اور اس پرپورا اُتر جانا تو ناممکنات میں سے ہے.

اسی طرح جب سورۃ الانعام کی یہ آیت نازل ہوئی : 
فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۘ۸۱﴾ ’’اب دونوں فریقوں (یعنی ایک موحدین کا گروہ ہے اور ایک مشرکین کا ‘توان) میں سے امن کا مستحق کون ہے؟ (یعنی کس کو دلی اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے ؟بتاؤ) اگر تم سمجھ رکھتے ہو!‘‘ جیسا کہ قرآن مجید کا عام اسلوب ہے کہ پہلے سوال کیا جاتا ہے اور پھر جواب بھی اللہ خود دیتا ہے. اس کا فائدہ یہ ہے کہ سوال کرنے سے ذہن بیدار ہو کر غور و فکر شروع کردیتا ہے اور پھراس کے سامنے اصل جواب آ جاتا ہے. تو یہاں بھی اگلی آیت میں اس کا جواب دے دیا گیا فرمایا: 
اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ وَ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ ﴿٪۸۲﴾ 

’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں کسی ظلم کی آمیزش نہیں ہونے دی‘ اُن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں .‘‘
یہ سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گھبرا گئے اور حضور سے کہنے لگے کہ ایسا کون شخص ہو گا جس کی زندگی کے اندر ظلم کی آمیزش نہ ہو. بسا اوقات ہم اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں‘ اپنے نفسوں پر زیادتی کر بیٹھتے ہیں یا بغیر کسی ارادے ‘ نیت اوروجہ کے ہم کسی کے ساتھ ایسا معاملہ کر
بیٹھتے ہیں جو ظلم کے دائرے میں آتا ہے ‘توپھر کون ہے جوظلم سے بچے گا اور امن کا مستحق کون ہو گا؟ رسول اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا: یہاں ظلم سے مراد ’’شرک‘‘ ہے اور سورۂ لقمان کی آیت پڑھی: اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾ ’’یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘. اس اعتبار سے سورۃ الانعام کی مذکورہ بالا آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ جو شخص ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی قسم کے شرک کی آمیزش نہ ہونے دے تو اس کے لیے امن اور دلی سکون ہے. 

اسی طرح کا معاملہ سورۂ آل عمران کی آیت ۱۰۲ کا تھا کہ صحابہؓ کو تشویش ہوئی کہ کون اللہ کے تقویٰ کا حق ادا کر سکتا ہے؟ مگر اس کے بعد جب سورۃ التغابن کی آیت: 
فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ (آیت ۱۶’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا تمہاری استطاعت میں ہے‘‘ نازل ہوئی تب صحابہ کو اطمینان ہوا کہ اپنی امکانی حد تک تو ہم اللہ کا تقویٰ اختیار کر سکتے ہیں. یعنی جتنی بھی ہمارے اندر طاقت ہے اس حد تک تو ہم اللہ کے تقویٰ کا حق ادا کر سکتے ہیں مگر یہ کہ اللہ کے تقویٰ کا حق ادا کرنا جیسا کہ اس کے اداکرنے کا حق ہے ‘ یہ بہرحال ہمارے لیے ممکن نہیں ہے.
اسی طرح میں نے سورۃ التحریم کی یہ آیت بھی خطاب کے شروع میں تلاوت کی: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ ﴿۶﴾ (التحریم) 
’’مؤمنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جس پرتندخو اور سخت مزاج فرشتے (مقرر) ہیں ‘اللہ ان کو جو ارشاد فرماتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے وہ اسے بجا لاتے ہیں.‘‘

اس آیت میں سب سے پہلے آتش جہنم سے اپنے آپ کو بچانے کا حکم ہے. چنانچہ حضور اکرم اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے : 
اُوْصِیْکُمْ وَنَفْسِیْ بِتَقْوَی عَزّوجلّ ’’میں تمہیں وصیت کر رہا ہوں اور اپنے نفس کو بھی کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو!‘‘ 

احادیث میں تقویٰ کی عملی شکلوں کا بیان

بعض احادیث میں تقویٰ کی عملی شکل سامنے آتی ہے اور آج ہمارے زیر مطالعہ جو دو احادیث ہیں ان میں بھی تقویٰ کی عملی شکل بیان ہوئی ہے . اس سے پہلے اربعین نووی کی حدیث ۴ میں بھی تقویٰ کی عملی شکل کا بیان تھا جس میں فرمایا گیا : اِنَّ الْحَلَالَ بَـیِّنٌ ‘ وَاِنَّ الْحَرَامَ بَـیِّنٌ ‘ وَبَیْنَھُمَا اُمُوْرٌ مُشْتَبِھَاتٌ لَا یَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ ‘ فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُھَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ یعنی حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے ‘لیکن ان دونوں کے مابین کچھ مشتبہات بھی ہیں ‘جن کے بارے میں کچھ شک سا ہو جاتا ہے کہ پتا نہیں یہ حلال ہیں یا حرام !اور ان کے حکم کے بارے میں قرآن یا سنت کی کوئی واضح نص موجود نہیں تو اب جو شخص واقعتا تقویٰ کا حق کسی بھی درجے میں‘ چاہے وہ درجہ ٔاستطاعت ہی کیوں نہ ہو‘ ادا کرناچاہتا ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ شبہات کو ترک کر دے. یہ نہ ہو کہ مشکوک چیز سے یہ سوچ کر فائدہ اٹھائے کہ اس کی حرمت ثابت نہیں ہے .حالانکہ اگر دیکھا جائے تو قانون یہی ہے کہ جس شے کی حرمت ثابت نہیں وہ حلال اور مباح ہے.یعنی قانون کے دائرے کو تو وسعت دے دی گئی ہے‘ لیکن تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ جس کے حلال ہونے کا ثبوت نہیں ہے آپ اس سے بچ جائیں. لہٰذا جو شبہات سے بچ جائے گا وہ اپنے دین اور اپنی عزت و ناموس کو بچا لے گا .اللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ! 

تقویٰ کا تقاضا : مشتبہات سے بچنا

اسی طرح آج جو دو احادیث ہمارے زیر مطالعہ ہیں ان میں بھی تقویٰ کی عملی شکل بیان ہوئی ہے.پہلی حدیث کے راوی رسول اللہ کے چہیتے اور نہایت محبوب نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہیں اس روایت میں حضرت حسنؓ کی کنیت بھی دی گئی اور ولدیت بھی: عَنْ اَبِیْ مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ. ابومحمد ان کی کنیت اور ولدیت علی بن ابی طالب ہے. اسی طرح روایت کے ابتدا میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے دو اوصاف بھی بیان ہوئے ہیں: سِبْطِ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَرَیْحَانَتِہِ یعنی حضرت حسن اللہ کے رسول کے نواسے اور ان کی خوشبو ہیں.یہی وجہ ہے کہ حضورکی سیرت و کردارکو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں بھی محسوس کیا جا سکتا تھا آگے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا میں تثنیہ کی ضمیر اس لیے استعمال کی گئی کہ حضرت حسن بھی صحابی ہیں اور آپ کے والد حضرت علی بھی صحابی ہیں.

حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : 
حَفِظْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ  : ’’میں نے اللہ کے رسول سے ایک بات یاد کر لی‘‘ وہ بات یہ ہے : دَعْ مَا یَرِیْـبُکَ اِلٰی مَا لَا یَرِیْـبُکَ ’’اُس چیز کو چھوڑ دو جو تمہارے دل میں شک پیدا کر دے اور اس چیز کو اختیار کرو جو تمہارے اندر شک پیدا نہ کرے‘‘. اس ضمن میں ہماری اردو زبان میں ایک اچھا لفظ ہے: ’’خلجان‘‘ . اس اعتبار سے حدیث کا ترجمہ یوں ہو گا کہ جو چیز تمہارے دل میں ’’خلجان‘‘ پیدا کر ے اسے چھوڑ دو .یعنی دل میںایک خلجان سا ہے کہ میں جوکر رہا ہوں پتا نہیں یہ صحیح ہے بھی کہ نہیں ‘کہیں یہ حرام تو نہیں. تو اگر ایسا کوئی شک دل میں پیدا ہو گیا ہے تو اس کو چھوڑ دو.

یہ حدیث اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ یہ اس بات کی ایک سند عطا کر رہی ہے کہ انسان کا ضمیر اور دل صحیح فتویٰ دیتا ہے .اس سے پہلے ہم پڑھ چکے ہیں کہ بسا اوقات حضور سے کوئی صاحب مسئلہ پوچھتے تھے کہ میں یہ کروں یا نہ کروں تو آپؐ جواب میںفرماتے تھے : 
اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ یعنی اپنے دل سے اس بارے میں فتویٰ لے لو!بظاہر یہ حکم عام معلوم ہوتا ہے ‘لیکن یہ عام نہیں خاص ہے. یہ صرف انہی لوگوں کے لیے ہے جن کے دلوں میں نورِ ایمان اور کامل یقین موجود ہے‘ جن کے دل کو ’’دلِ زندہ‘‘ کہا گیا ہے ‘ اور دل زندہ وہ ہوتا ہے جس میں روحِ ربانی (جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر پھونکی ہوئی ہے) زندہ ہے اور اس میں حرارت موجود ہے.الغرض قلب کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ آپ کو بتا سکتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط. اس اعتبار سے انسان کا ضمیر (conscience) ایک قسم کا جج ہے جو انسان کو غلط کام پر ملامت کرتا ہے . اگر انسان کوئی غلط حرکت کر بیٹھا ہے ‘مثلاً وقتی طو رپر کوئی جذبات کا طوفان آیا اور انسان اس میں بہہ گیا یا کسی ایسے ماحول میں بیٹھا ہواتھا جہاں برائی غالب تھی تو وہ بھی غلط کام کر بیٹھا تو اندر سے دل اسے ملامت کر ے گا.یہی وجہ ہے کہ آپ نے لوگوں کو اکثر یہ کہتے ہوئے سناہو گا کہ میرا ضمیر مجھے کاٹ رہا ہے ‘ مجھے ڈس رہا ہے . 

اسلام‘ ایمان اور یقین قلبی کی کیفیات

حدیث ِجبریل کے مطالعے کے دوران میں نے عرض کیا تھا کہ ایک ایمان وہ ہے جو اقرار باللسان کے درجے میں ہے ‘یعنی محض زبان سے شہادت (verbal attestation) ہے تو اس سے اسلام کا تقاضا تو پورا ہو گیا حدیث جبریل میں اسلام کے بارے میں کیے گئے سوال کے جواب میں حضور اکرم نے فرمایا: 

اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْھَدَ اَنْ لاَّ اِلٰــــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَتُقِیْمَ الصَّلَاۃَ، وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ، وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا 

’’اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور یہ کہ محمد ( ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں‘ نماز ادا کرے‘ زکوٰۃ دے‘ رمضان کے روزے رکھے‘ اور استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرے.‘‘ 

گویا ’’ مسلمان‘‘ ہونے کے لیے ’’ایمان‘‘ لازمی نہیں ہے. جو بھی زبان سے کلمہ شہاد ت کا اقرار کرے گا تو وہ ہمارے ہاں مسلمان سمجھا جائے گا. اس لیے کہ ہمیں کیا پتا کہ اس کے دل میں ایمان ہے یا نہیں؟ ہمار ے پاس کوئی ایسا ذریعہ یا الیکٹروکاڈیو گرام جیسا کوئی آلہ بھی نہیں ہے کہ دل میں اتار کر اس کا ایمان جانچ سکیں .لہٰذا اسلام کا دار و مدار اقرار باللسان پر ہے. یہ بہت اہم بات ہے. اکثر ہم ’’اسلام‘‘ اور ’’ایمان‘‘ کے مابینفرق نہ کرنے سے خلط مبحث کر جاتے ہیں. حدیث جبریل میں اسلام اور ایمان کی حقیقت کو علیحدہ علیحدہ کر کے بیان کیا گیا ہے.ا س اعتبار سے قرآن مجید کی اہم ترین آیت سورۃ الحجرات کی آیت ۱۴ ہے ‘جس میں فرمایا گیا : 
قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ 
’’یہ بدو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے .( اے نبی !) آپ ان سے فرما دیجیے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو ‘ ہاں یوں کہہ سکتے ہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں (یعنی ہم نے اطاعت قبول کر لی ہے )جبکہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوںمیں داخل نہیں ہوا ہے.‘‘

الغرض ایک ہے زبانی اقرار والا ایمان ‘جبکہ اس کے مقابلے میں ایک ہے دل کے اندر اُتر جانے والا ایمان . پھر اس ایمان کے بھی درجات ہیں ‘جو یقین کی کیفیات پر منحصر ہیں. ویسے یقین کی گہرائی کا توہم اندازہ ہی نہیں کرسکتے . میں نے شاید پہلے بھی سلطان باہو کا ایک شعر آپ کو سنایا ہے مجھے پنجابی زیادہ نہیں آتی اور پنجابی صوفیاء کے کلام کا میں نے خاص مطالعہ بھی نہیں کیا‘ لیکن بعض چیزیں جو سننے میں آتی ہیں وہ واقعتا محسوس ہوتی ہیں کہ بہت گہری باتیں ہیں سلطان باہو کہتے ہیں : ؎

دل دریا سمندروں ڈُونگھے کون دلاں دیاں جانے ہو!

یعنی دل کی گہرائی تو دریابلکہ سمندر سے بھی زیادہ ہے. آپ کسی کے دل کا حال معلوم نہیں کر سکتے. اس کی وجہ یہ ہے کہ دل مسکن ہے روح کا اور روح کا تعلق تو ذاتِ باری تعالیٰ سے ہے: وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۸۵﴾ (بنی اسراء یل) ’’(اے نبی !) وہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں. آپ کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے اور تمہیں تو بہت ہی کم علم دیا گیا ہے‘‘.اس اعتبار سے دل کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے جڑ جاتا ہے. یہ بالکل ایسے ہے جیسے سورج کی کرن سورج سے چل کر ہماری اس زمین تک آ گئی ہے اور اس نے زمین کو روشن کر دیا ہے ‘لیکن اس کا تعلق اللہ کے سورج سے ٹوٹا نہیں ہے. سو رج کی کرن خط مستقیم میں سفر نہیں کرتی بلکہ قریب البیضوی (parabola) راستہ اختیار کرتی ہے. چنانچہ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اگر درمیان میں کوئی شے رکاوٹ نہ بنے تو سورج کی کرن چکر کھاکے سورج میں واپس پہنچ جائے گی .یہ تو درمیان میں کوئی شے حائل ہوئی جس نے اسے واپس جانے سے روک لیا اور روکنے کی وجہ سے وہ شے منور ہو گئی. اگر کوئی شے درمیان میں نہ آئے تو وہ چلتی جائے گی اور ایک بہت بڑا چکر لگا کر ‘ جس کا ہم اندازہ نہیں کر سکتے‘ یہ کرن واپس سورج میں پہنچ جائے گی. یہی معاملہ روح کا ہے اور وہ بھی درحقیقت انسان کے اندر ایک طرح کی روشنی ہے. 

قلب ِمؤمن میں موجود نورِ ایمان اور اس کی مثال

اس حوالے سے یہ بات جان لیجیے کہ جب انسان غلطی پر مصر رہتا ہے اور حرام خوری پر ڈیرے ڈال لیتا ہے تو پھر ایک وقت آتا ہے کہ یہ روشنی بجھ جاتی ہے اورپھر اس میں حق و باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی.گویاوہ چراغ اندر سے بجھ گیا ہے یا اس کے اوپر اتنی سیاہی آگئی ہے کہ اب اس کی روشنی باہر نہیں آ رہی. آج کل تو ہمیں اس کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا جبکہ پچھلے زمانے میں لالٹینیں ہوتی تھیں.اس کے اندر ایک شیشہ ہوتا تھا جو اس کی روشنی کو ہموار طریقے سے چاروں طرف پھیلا رہا ہوتا تھا. اگر لالٹین کے اس شیشے پر دھواں جم جائے تو شعلہ جلنے کے باوجود روشنی باہر نہیں آئے گی. یہی حال دل کاہے کہ اگر گناہوں کی وجہ سے اس پر سیاہی جم جائے تو پھر اندر کی روشنی باہر نہیں آتی. 
یہ تو تمثیلات ہیں اور ایک ہی حقیقت کو واضح کرنے کے مختلف انداز ہو سکتے ہیں. حضور اکرم نے گناہ کو سیاہ نکتے سے تعبیر فرمایا ہے جو بندۂ مؤمن کے دل پر لگ جاتا ہے. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

اِنَّ الْمُؤْمِنَ اِذَا اَذْنَبَ ذَنْبًا کَانَتْ نُکْتَۃً سَوْدَائَ فِی قَلْبِہٖ ، فَاِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صَقَلَتْ قَلْبَہٗ ، فَاِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی تُغْلَقَ قَلْبُہ ، فَذٰلِکَ الرَّانُ الَّذِیْ قَالَ اللّٰہُ جَلَّ ثَنَاؤُہٗ
کَلَّا بَلۡ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾ (۱
’’ایک مسلمان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اُس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے. پھر اگر وہ توبہ کر لے‘ باز آ جائے اور استغفار کرے تو یہ نکتہ اس کے دل سے 
(۱) رواہ الترمذی فی السُّنن (ح:۳۳۳۴) وابن جریر الطبری فی التفسیر (۱/۱۴۷) واللفظ لہ. دور ہو جاتا ہے. لیکن اگر وہ (گناہوں میں) بڑھتا جائے تو یہ سیاہی بھی بڑھتی جاتی ہے‘ یہاں تک کہ اُس کا دل بند ہوجاتا ہے. پس یہی وہ زنگ ہے جس کے بارے میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا ہے : ’’ہرگز نہیں ‘بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ بیٹھ گیا ہے.‘‘ (المطففین:۱۴

ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ نے اپنی مٹھی بند کر کے دل کے بند ہو جانے کی تمثیل بیان فرمائی.یعنی اگر بند مٹھی میں کچھ روشنی ہے بھی تو وہ جسم کو منور نہیں کر سکتی. یہی تشبیہہ دراصل سورۃ النور میں بیان ہوئی ہے : 

اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ 
(آیت ۳۵
’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے. (بندۂ مؤمن کے قلب میں موجود) اُس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے اور اس طاق میں ایک چراغ ہے‘ اور چراغ ایک شیشے میں ہے.‘‘

اب آپ ذرا غور کیجیے اور اپنے جسم کی ہڈیوں کے پنجر کو اپنے تصور میں لائیے‘ تو سینے کی جو ہڈیاں اور پسلیاں ہیں وہ بالکل ایک طاق کے مانند ہیں. ’’ڈایا فرام‘‘ جو ہمارے سینے کو معدے وغیرہ سے جدا کرتا ہے‘ وہ اس کا فرش ہے اوراس پر قلب رکھا ہوا ہے . جب یہ قلب ایمان سے منور ہو جاتا ہے تو پھر یہ ایک روشن چراغ کے مانند ہے اور اسسے جو نور پھوٹتا ہے وہ پورے انسانی وجود کو روشن کر دیتا ہے.یہ ہے درحقیقت نورِایمان کی مثال. بعض لوگوں کو اس بارے میں مغالطہ ہوا ہے اور وہ اسے اللہ کے نور کی مثال سمجھتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں. حالانکہ یہ اصل میں نورِ ایمان کی مثال ہے. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ یہاں 
’’مَثَلُ نُوْرِہٖ‘‘ سے مراد ہے : ’’مَثَلُ نُوْرِہٖ فِیْ قَلْبِ الْمُؤْمِنِ‘‘ (اللہ کے نور کی مثال جو مؤمن کے قلب میں ہے) .گویا یہاں مراد ہے نورِ ایمان. اور ہر شخص جانتا ہے کہ ایمانِ حقیقی کے نور کا محل و مقام قلب ہے.

گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے

’’اربعین نووی‘‘ کی زیرمطالعہ حدیث کے حوالے سے میں نے بتایا کہ یہ حدیث اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ یہ انسان کے ضمیر کو سند دے رہی ہے. اسی معاملہ کو ایک اور سطح پر محمد ٌرسول اللہ نے یوں بیان فرمایا: 

اَلْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتَ اَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ 
(۱
’’گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تمہیں یہ ناپسند ہو کہ وہ لوگوں کے علم میں آئے.‘‘

اس حدیث کے دوسرے ٹکڑے پر غور کیجیے . اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا اجتماعی ضمیر بھی ایک شے ہے جس طرح میرا اور آپ کا ایک انفرادی ضمیر ہے ‘اگر ایمان کی کوئی رمق ہمارے اندر موجود ہے تو وہ صحیح حکم لگاتا ہے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا . اسی طرح ایک نوعِ انسانی کا اجتماعی ضمیر ہے. نبی اکرم اسے بھی سند دے رہے ہیں‘ بایں طور کہ آپ نے فرمایا کہ اگر آپ نے کوئی ایسا عمل کیا ہے جس کے بارے میں آپ نہیں چاہتے کہ لوگوں کے علم میں آئے تو یہ عمل گناہ ہے .چنانچہ اس حدیث کا پہلا جملہ 
اَلْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ ’’گناہ وہ ہے جو تمہارے اپنے دل میں خلجان پیدا کر دے ‘‘ انسان کے انفرادی ضمیر سے متعلق ہے‘ جبکہ حدیث کا دوسرا جملہ وَکَرِھْتَ اَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ ’’اور تم ناپسند کرو کہ وہ بات لوگوں کے علم میں آئے‘‘ بنی نوع انسان کے اجتماعی ضمیر سے متعلق ہے. گویا نوعِ انسانی کا اجتماعی ضمیر بھی صحیح فیصلے کرتا ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے نیکی کے لیے ’’مَعْرُوف‘‘ اور بدی کے لیے ’’مُنْکَر‘‘ کالفظ استعمال کیا ہے. معروف کا معنی ہے جانی پہچانی چیز جبکہ منکر سے مراد وہ چیز ہے جو انسان پہچان نہیں پاتا. چنانچہ فطرتِ انسانی کے نزدیک منکر اور بدی ایسی اجنبی چیز ہے جس سے اس کو دلچسپی نہیں ہے‘ اس کی پہچان اور اس کی راہ و رسم نہیں ہے. دوسری طرف نیکی اور معروف وہ ہے جسے انسان جانتا پہچانتا ہے ‘ اس کی طرف (۱) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تفسیر البر والاثم. اسے رغبت ہوتی ہے اور اس کو وہ پسند کرتا ہے. 

یہاں یہ بھی نوٹ کر لیں کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکرقرآن مجید کی بڑی اہم اصطلاح ہے ‘ جوقرآن مجید میں کئی مقامات پر استعمال ہوئی ہے . مثلاً حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: 
یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ (لقمٰن:۱۷’’اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو ‘نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو‘‘. دین اسلام میں ایسا نہیں ہے کہ دو ہزار چیزوں کی لمبی فہرست دے کر بتا دیا گیا ہو کہ یہ برائیاں ہیں اور ایک ہزار چیزوں کی فہرست دے کر بتا دیا گیا ہو کہ یہ اچھائیاں ہیں‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی ضمیر کے اندر الہامی طو رپر نیکی اور بدی کا علم ودیعت کر دیا ہے. تو انسان کی فطرت (nature) جانتی ہے کہ کیا خیر ہے اور کیا شر ‘ کیا فجور ہے اور کیا تقویٰ ہے. اس حوالے سے سورۃ الشمس میں فرمایا گیا: 

وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ﴿۹﴾وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا ﴿ؕ۱۰﴾ 

’’اور نفس انسانی کی (قسم) اور جیسا کچھ اس کو سنوارا. پھر اس کی بدکاری اور اس کی پرہیزگاری (دونوں) کی اسے سمجھ دی. پس جس نے (اپنے) نفس (یعنی روح) کو (برائیوں سے) پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا ‘اور جس نے اسے خاک میں ملایا (یعنی بدکاریوں میں پڑ گیا تو)وہ خسارے میں رہا.‘‘ 

تقویٰ کی عملی شکل : لغو کاموں سے اعراض

اب ہم اربعین نووی کی حدیث ۱۲ کا مطالعہ کرتے ہیں یہ حدیث حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے اور یہ حدیث حسن ہے جسے امام ترمذی نے اپنی ’’سنن‘‘ میں روایت کیا ہے رسول اللہ نے فرمایا: 

مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ 

’’انسان کے اسلام کا حسن اس میں بھی ہے کہ وہ ہر اُس چیز کو چھوڑ دے جس کا اسے کوئی فائدہ نہ ہو.‘‘ 
اس حدیث پر بڑے غور و فکر کی ضرورت ہے حُسْنِ الْاِسْلَامِ یعنی اسلام کی خوبی کے بارے میں تو ہم نے حدیث جبریل کی روشنی میں تفصیل سے پڑھا تھا . درحقیقت اسلام ہی کو خوبصورت بنانا ہے . مثال کے طور پر نماز اسلام کا ایک رکن ہے. جب ایمان اور قلبی یقین آ گیا تو نماز کی کوئی اور ہی شان ہوجائے گی. پھر جب قلبی یقین مزید گہرا ہو گیا تو اب وہ نماز ’’معراج المؤمنین‘‘ بن جائے گی. یعنی چیز وہی ہے مگر اس کا روپ ‘اس کا رنگ‘ اس کی شان ‘اور اس کا حسن ایمان کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے .اسی کا نام ’’حسن الاسلام‘‘ہے اور اسی کو تصوف سے تعبیر کیا جاتا ہے.

تصوف کے موضوع پر میرا ایک چھوٹا سا کتابچہ ہے:’’مروجہ تصوف یا احسانِ اسلام‘‘ تصوف کے ایک معنی تووہ ہیں جو آج کل ہمارے ہاں معروف ہیںیعنی مروجہ تصوف‘ جبکہ ایک تصوف ہے قرآن ‘ حدیث ‘ محمد اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا. اس تصوف کے لیے لفظ ’’احسان‘‘ یا ’’حسن اسلام‘‘ استعمال کیجیے. وہ تصوف ہے : اسلام میں حسن اور خوبی کا پیدا ہو جانا. اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تصوف اسلام سے علیحدہ کوئی شے ہے‘ بلکہ اسلام کے اندر ایک خوبی‘ ایک حسن اور ایک دلربائی کاپیدا ہو جانا تصوف ہے اور اس کیفیت کا اصل نام ’’احسان‘‘ ہے. احسان کے بارے میں بھی ہم حدیث جبریل میں تفصیل سے پڑھ چکے ہیں. 

دنیا آخرت کی کھیتی ہے

زیردرس حدیث میں رسول اللہ نے فرمایا کہ کسی انسان کے اسلام کی خوبی‘ بہتری‘ اس کے حسن اور درجے کے بلند ہونے میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ وہ ہر اُس چیز کو چھوڑ دے جو اس کے لیے کوئی مفید و نفع بخش نتیجہ برآمد نہ کرتی ہو.اس کا مطلب سمجھ لیجیے. دیکھئے ہماری زندگی بڑی محدود سی ہے. آج کل کی اوسط عمر تقریباً ۶۰ سال ہے. ان ۶۰ سالوں میں پہلا دور یوں گزر گیا کہ ابھی پورا شعور نہیں تھا اور بعد میں پھر ایک ایسا دور آ گیا کہ ’’لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا‘‘ کے مصداق اس کے حواس پوری طرح برقرار نہیں رہے . ان دونوں اَدوار کے درمیان میں تیس چالیس برس کا عرصہ ہے جس میں انسان باشعور ہے اور وہ اپنے ارادے ‘عزم اور منصوبہ بندی کے مطابق فیصلے اور عمل کرتا ہے. اس دور میں کیے گئے اَعمال و اَفعال کے نتائج لامتناہی زندگی یعنی آخرت میں نکلنے ہیں.جو یہاں کمائیں گے وہی آخرت میں پائیں گے. چنانچہ دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا جاتا ہے . (اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃِ).یہاں بوؤ گے تو وہاں کاٹو گے‘ اور اگر یہاں کچھ بویا ہی نہیں تو وہاں کیا کاٹو گے؟ اگر یہاں کانٹے بوئے ہیں تو وہاں کانٹے ہی کاٹنے پڑیں گے اور اگر یہاں پھل دار اور پھول دار درخت لگائے ہیں تو وہاں پر بھی آپ کو پھل دار اور پھول دار درخت ہی ملیں گے. اگر آپ نے دنیوی زندگی میں نیکیاں کمائی ہیں تو وہاں نیکی کا بدلہ انعامات کی صورت میں ملے گا اور اگر اس حیاتِ ارضی میں بدیاں کمائی ہیں تو ظاہری بات ہے کہ ان کی سزا عذاب کی صورت میں ملے گی.

یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور اس محدود زندگی میں ہمارے پاس جو بھی وقت ہے‘ اسی میں ہمیں سب کچھ بنانا ہے. تو کیا کوئی عقل و شعور رکھنے والاشخص اس محدود سی زندگی میں سے کسی وقت کا ضائع کرنا گوارا کرے گا؟ اس کا ہر لمحہ 
’’اَمر‘‘ ہے ’’ اَمر‘‘ ہندی کا لفظ ہے جس کا معنی ہے ’’نہ ختم ہونے والا ‘‘. جب گاندھی جی مرے تھے تو انڈین ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر اُس وقت کہا گیا تھا: ’’گاندھی جی امر ہو گئے ‘‘اور یہاںکسی نے بے نظیر بھٹو کے بارے میں بھی کہا ہے کہ وہ امر ہو گئیں. یہ ہندوانہ تصور ہے. صحیح بات تو یہ ہے کہ مرنے کے بعد جو زندگی شروع ہونی ہے اس کے لیے موت نہیں ہے.ہر شخص مرنے کے بعد اَمر ہو جائے گا‘کیونکہ اب کوئی اور موت تو آئے گی نہیں. اب تو بس یہی ہے کہ مرنے کے فوراً بعد آپ عالم برزخ میں داخل ہوں گے اور ایک وقت آئے گا کہ عالم برزخ سے عالم آخرت میں منتقل ہو جائیں گے . 

دُنیوی زندگی دیباچہ اور اُخروی زندگی اصل کتاب ہے

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آخرت کی زندگی لامتناہی (infinite) ہے‘ یعنی وہ زندگی محدود نہیں ‘ لامحدود ہے‘ جبکہ ہماری یہ دُنیوی زندگی متناہی (finite) ‘محدود اور بہت چھوٹی ہے.اس حوالے سے میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ ہم آخرت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اگر آپ آخرت کے حوالے سے اپنے ذہن کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے ذہنوں میں دنیوی اور اُخروی زندگیوں کا نسبت وتناسب (ratio proportion) ایسا ہے کہ جیسے اصل کتاب تو یہ دنیا کی زندگی ہے ‘اور آخرت کی حیثیت کتاب کے آخر میں لگے ایک چھوٹے سے ضمیمہ (appendix) کی ہے ایک تو وہ لوگ ہیں جو آخرت کو مانتے ہی نہیں‘ ان سے قطر نظر‘ جو مانتے ہیں ان کا ماننا بھی اس درجے میں ہوتا ہے کہ وہ اس دُنیوی زندگی کو اصل کتاب مانتے ہیں اور آخرت کو کتاب کے ساتھ لگا ہوا ایک ضمیمہ‘ جو اصل کتاب کا بمشکل دو فیصد ہوتا ہے. حالانکہ حیاتِ دنیوی کی حیثیت کتاب کے دیباچے کی ہے‘ جبکہ اصل کتابِ زندگی تو کھلے گی موت کے بعد‘ جیسے سورۃ العنکبوت میں فرمایا: وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾ ’’درحقیقت آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے . کاش وہ جانتے!‘‘ غزوۂ احزاب میں رسول اللہ نے خندق کی جاں گسل کھدائی میں مصروف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھ کر فرمایا تھا: 

اَللّٰھُمَّ لَا عَیْشَ اِلاَّ عَیْشُ الْآخِرَۃِ . فَاغْفِرْلِلْاَنْصَارِ وَالْمُھَاجِرَۃِ! 

’’ اے اللہ! آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ‘جبکہ یہ زندگی کوئی زندگی ہی نہیں ہے‘پس تو (اپنے راستے میں جہاد وقتال میں مصروف)انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما دے!‘‘(بخاری ومسلم)

دنیوی و اُخروی زندگی کے مابین نسبت و تناسب کے اعتبار سے‘ اب یا تو ہم وہ کام کریں جس سے دنیا کی کوئی ضرورت پوری ہو رہی ہو اس میں ’’طولِ امل‘‘ نہیں ہونا چاہیے کہ دنیا کی خواہشات ربڑ کی طرح پھیلتی چلی جائیں. تعیش‘ فراوانی اور زیادہ سے زیادہ سہولتیں ضروریات 
(necessities) میں نہیں آتیں. لہٰذا وہ کام کرو جس سے یا تو دنیا کی کوئی ضرورت پوری ہو یا آخرت کے اندر انسان کو اس کا اجر و ثواب مل سکے. ان دو کے علاوہ کسی تیسرے کام کے لیے زندگی کا کوئی لمحہ ضائع کرنا ایمان اور اسلام کے منافی ہے. اگر آپ کوئی لمحہ کسی فضول اور بے کار کام میں ضائع کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ آپ کو آخرت پر یقین ہی نہیں.

بے فائدہ کاموں سے اجتناب : شیوۂ مؤمن

یہی وجہ ہے کہ سورۃ المؤمنون میں کامیاب ہونے والے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا: قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾ ’’بے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے‘ جو اپنی نماز میں عجزو نیاز کرتے ہیں‘ اور جو بے ہودہ باتوں سے منہ موڑے رہتے ہیں‘‘. لغو کام اسے کہتے ہیں جو بے فائدہ ہو ‘ مثلاً بیٹھے تاش یا شطرنج کھیل رہے ہیں. بھئی کونسی تمہاری دنیا کی ضرورت اس سے پوری ہوئی یا تم نے اس سے آخرت کا کیا کمایا؟ اس ضمن میں ایک اصطلاح ہمارے ہاں ’’وقت گزاری‘‘ (یا to kill the time) استعمال ہوتی ہے ‘حالانکہ یہ وقت اتنی حقیر شے نہیں ہے کہ اسے یونہی ضائع کر دیا جائے. وقت گزاری کے مشغلے انہی کے لیے ہوں گے جن کو آخرت پر یقین نہیں ہے ‘ورنہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی صاحب ایمان اپنا وقت یونہی ضائع کر دے. اگر آپ کو وقت ملا ہے تو سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اور سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ کا ورد کیجیے.ان میں سے ہر کلمہ آپ کے لیے جنت میں پودا بن جائے گا اور وہاں آپ کو سرسبز باغات ملیں گے‘ لہٰذا وقت ضائع کیوں کررہے ہو؟ یا تو کسی ایسے کام میں مصروف ہوجاؤ جس سے دنیا کی کوئی ضرورت پوری ہو رہی ہو؟ یا پھر آخرت کے کمانے کے لیے لگ جاؤ‘ تیسرا کام نہیں ہونا چاہیے . اس لیے ایمان والوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾ یعنی اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جو لغو اور بے فائدہ کاموں سے مکمل اجتناب برتتے ہیں.

آپ میں سے بہت سے حضرات کے علم میں ہو گا کہ سورۃ المؤمنون کی ابتدائی گیارہ آیات کے ہم معنی اور بہت مشابہ سورۃ المعارج کی آیات ہیں. سورۃ المعارج میں 
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾ کے بجائے وَ الَّذِیۡنَ یُصَدِّقُوۡنَ بِیَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿۪ۙ۲۶﴾ کے الفاظ آئے ہیں. یعنی کامیاب ہونے والے وہ لوگ ہیں جو آخرت‘ قیامت کے دن‘ جزا و سزا اور حساب و کتاب کو مانتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں.آیات کی اس ترتیب سے مفہوم یہ بنے گا کہ جزا و سزا کے قانون پر ایمان رکھنے والوں کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی لغو کام کے اندر اپنا وقت صرف کریں!بلکہ سورۃ الفرقان میں’’عباد الرحمن‘‘ کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے تویہاں تک فرمایا گیا: وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا ﴿۷۲﴾ ’’اور جب انہیں بے ہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو باوقار انداز سے گزرجاتے ہیں ‘‘.یعنی خود لغو کام میں ملوث ہونا تو بہت دور کی بات ہے ‘اگر کہیں اتفاق سے لغو کام کرتے لوگوں کے پاس سے گزر ہو جائے تو وہ متوجہ ہوئے بغیر گزر جاتے ہیں. مثلاًآپ کسی کام سے جا رہے ہیں اور آپ نے دیکھا کہ سڑک پر لوگ جمع ہیں. کوئی کھیل تماشا ہے‘ کوئی مداری ہے جو کرتب دکھارہا ہے‘ لوگوں کی دل لگی کا سامان کر رہا ہے‘ وغیرہ .اب اگر آپ اس طرف متوجہ ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے وقت کی قدر و قیمت کو نہیں سمجھا ‘جبکہ عبادالرحمن کا شیوہ یہ ہے کہ اوّل تو وہ بالارادہ کسی لغو کام کی طرف جاتے نہیں اور اگر اتفاقاً کسی لغو کے پاس سے گزر ہو جائے تو وہ وہاں سے باعزت طریقے سے گزر جاتے ہیں اور اس طرف متوجہ نہیں ہوتے. یعنی اپنے وقت کا کوئی منٹ بھی ضائع کرنے کو تیار نہیں ہوتے . 

جوامع الکلم احادیث کو یاد کیجیے!

یہ احادیث بڑی چھوٹی چھوٹی ہیں ‘لیکن ان میں معانی کا ایک جہان پوشیدہ ہے. یہی وہ احادیث ہیں جن کو ’’جوامع الکلم‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے. ان مختصر احادیث کو یاد کر لینا آسان ہے ‘لہٰذا ان کو ضرور یاد کرنا چاہیے .آج کی اس نشست میں اربعین نووی کی دو احادیث ہمارے زیر مطالعہ آئیں اور ان کے ضمن میں ایک اور بہت اہم حدیث کا بھی تذکرہ ہوا . میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان احادیث کو ذہن نشین کر لیں گے . آپ کی آسانی کے لیے میں وہ تینوں احادیث ایک بار پھر دہرا دیتا ہوں.

(۱دَعْ مَا یَرِیْـبُکَ اِلٰی مَا لَا یَرِیْـبُکَ 
’’جس چیز سے دل میں خلجان پیدا ہو جائے اسے چھوڑ دو اور وہ چیز اختیار کر و جس سے دل میں اطمینان ہو .‘‘

(۲) اَلْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتَ اَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ 
’’گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں خلجان پیدا کرے اور تم ناپسند کروکہ یہ لوگوں کے علم میں آئے.‘‘

(۳مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ 
’’کسی انسان کے اسلام کی خوبی میں یہ بھی شامل ہے کہ کسی لایعنی کام میں وقت ضائع نہ کرے.‘‘

یعنی انسان کے اسلام کے اندر جو حسن پیدا ہوا ہے اگر وہ اسلام اور ایمان سے گزر کر احسان کے درجے تک آگیا ہو تو پھر اسے چاہیے کہ وہ اپنا وقت یا تو ایسے کام میں صرف کرے جس سے دنیا کی کوئی ضرورت 
(necessity) پوری ہو رہی ہو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دنیا کے اندر اپنی جائیداد بڑھاتے چلے جانا‘ کاروبار پھیلاتے چلے جانا اور اپنے لیے لذاتِ دُنیوی اور عیاشی کے سامان فراہم کرنا‘ بلکہ ایسا کام ہو جس سے دنیا کی ضرورت پوری ہو یا پھر ایسے کام میں جو انسان کے لیے آخرت کا تحفہ بن جائے ‘ آخرت کا خزانہ بن جائے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.

آمین یا ربّ العالمین!
اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات