یکم فروری ۲۰۰۸ء کا خطبہ جمعہ 
خطبہ ٔمسنونہ کے بعد

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

وَ سَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ ۙ اُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۳۳﴾ۙالَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۳۴﴾ۚ 
(آل عمران) 
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ‘ اَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِیِّ  : اَوْصِنِیْ ‘ قَالَ : 

لَا تَغْضَبْ فَرَدَّدَ مِرَارًا‘ قَالَ : لَا تَغْضَبْ (۱
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم کی خدمت میں عرض کیا: آپؐ مجھے وصیت فرمائیں. آپ ؐ نے فرمایا:

’’غصہ نہ کیا کرو!‘‘ اُس نے بار بار اپنا سوال دہرایا .آپ نے ہر بار یہی جواب دیا کہ’’ غصہ نہ کیا کرو!‘‘

معزز سامعین کرام! 
’’اربعین نووی‘‘ کی حدیث ۱۶ آج ہمارے زیر مطالعہ ہے اور اس حدیث میں شدت اور تکرار کے ساتھ غصہ کی ممانعت کا ذکرہے. اس کے لیے تمہیداً میں نے سورۂ آلِ عمران کی دو آیات تلاوت کی ہیں. وہاں ارشاد ہوتا ہے : 
وَ سَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ’’(اے مسلمانو! )مسابقت کرو اپنے رب کی مغفرت کے حصول کی طرف‘‘ مسارعت (۱) صحیح البخاری‘کتاب الادب‘ باب الحذرمن الغضب کے معنی ہیں:تیز دوڑنے کے مقابلہ میں ایک دوسرے سےآگے نکلنے کی کوشش کرنا. آیت کے اس ٹکڑے کا مفہوم یہ ہو گا کہ اے مسلمانو! اپنے رب کی مغفرت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو. وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ ۙ ’’اور( مسابقت کرو ) جنت کے حصول کے لیے جس کا پھیلاؤ آسمانوں اور زمین جتنا ہے‘‘. اُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۳۳﴾ۙ ’’جو تیار کی گئی ہے( اور سجائی گئی ہے) اہل تقویٰ کے لیے.‘‘