۱۱/اپریل ۲۰۰۸ء کا خطابِ جمعہ 
خطبہ ٔمسنونہ کے بعد

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ3 

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرۡ لِلّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۱۲﴾ 
(لقمٰن) 
وَ مَنۡ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفۡسِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶﴾ 
(العنکبوت) 
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ الْغِفَارِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ‘ عَنِ النَّبِیِّ  فِیْمَا یَرْوِیْہِ عَنْ رَّبِّہٖ عَزَّوَجَلَّ : اَنَّہٗ قَالَ : 

یَا عِبَادِیْ! اِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ ، وَجَعَلْتُہٗ بَیْنَکُمْ مُّحَرَّمًا ، فَـلَا تَظَالَمُوْا، یَا عِبَادِیْ! کُلُّـکُمْ ضَالٌّ اِلاَّ مَنْ ھَدَیْتُہٗ ، فَاسْتَھْدُوْنِیْ اَھْدِکُمْ، یَا عِبَادِیْ! کُلُّکُمْ جَائِـعٌ اِلاَّ مَنْ اَطْعَمْتُہٗ ، فَاسْتَطْعِمُوْنِیْ اُطْعِمْکُمْ ، یَا عِبَادِیْ! کُلُّکُمْ عَارٍ اِلاَّ مَنْ کَسَوْتُہٗ ، فَاسْتَـکْسُوْنِیْ اَکْسُکُمْ، یَا عِبَادِیْ! اِنَّـکُمْ تُخْطِئُوْنَ بِاللَّیْلِ وَالنَّھَارِ، وَاَنَا اَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا، فَاسْتَغْفِرُوْنِیْ اَغْفِرْلَــکُمْ‘ یَا عِبَادِیْ! اِنَّــکُمْ لَنْ تَـبْلُغُوْا ضَرِّیْ فَتَضُرُّوْنِیْ، وَلَنْ تَبْلُغُوْا نَفْعِیْ فَتَنْفَعُوْنِیْ ، یَا عِبَادِیْ! لَوْ اَنَّ اَوَّلَــکُمْ وَآخِرَکُمْ ، وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّــکُمْ ، کَانُوْا عَلٰی اَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِّنْکُمْ، مَا زَادَ ذٰلِکَ فِیْ مُلْکِیْ شَیْئًا، یَا عِبَادِیْ! لَوْ اَنَّ اَوَّلَـکُمْ وَآخِرَکُمْ ، وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّــکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ مِّنْکُمْ، مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِنْ مُّلْکِیْ شَیْئًا، یَا عِبَادِیْ! لَوْ اَنَّ اَوَّلَــکُمْ 
وَآخِرَکُمْ، وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّـکُمْ، قَامُوْا فِیْ صَعِیْدٍ وَاحِدٍ فَسَاَلُوْنِیْ، فَاَعْطَیْتُ کُلَّ اِنْسَانٍ مَّسْاَلَـتَـہٗ، مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِمَّا عِنْدِیْ اِلاَّ کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ اِذَا اُدْخِلَ الْبَحْرَ، یَا عِبَادِیْ! اِنَّمَا ھِیَ اَعْمَالُـکُمْ اُحْصِیْھَا لَـکُمْ، ثُمَّ اُوَفِّیْکُمْ اِیَّاھَا، فَمَنْ وَّجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللّٰہَ، وَمَنْ وَّجَدَ غَیْرَ ذٰلِکَ فَـلَا یَلُوْمَنَّ اِلاَّ نَفْسَہٗ (۱

سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نبی اکرم سے حدیث قدسی روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’میرے بندو! میں نے اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے کہ کسی پر ظلم کروں اور میں نے اسے تمہارے درمیان بھی حرام کر دیا ہے ‘لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو. میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اُس کے جسے میں ہدایت دوں‘پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو تومیں تمہیں ضرور ہدایت دوں گا. میرے بندو! تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اُس کے جسے میں کھانا دوں‘پس تم مجھ سے کھانا مانگو تومیں تمہیں ضرور کھانا دوں گا. میرے بندو! تم میں سے ہر ایک ننگا ہے سوائے اُ س کے جسے میں لباس پہناؤں‘پس تم مجھ سے لباس طلب کرو تومیں تمہیں لباس دوں گا. میرے بندو! تم دن رات گناہ کرتے ہو اورمیں تمام گناہ معاف کرنے والا ہوں‘پس تم مجھ سے مغفرت طلب کرو تومیں تمہیں بخش دوں گا . میرے بندو! تم میرے نقصان کو نہیں پہنچ سکتے کہ مجھے کوئی نقصان پہنچاؤ اور نہ تم میرے نفع کو پہنچ سکتے ہو کہ مجھے کوئی نفع پہنچاؤ. میرے بندو! تم میں سے اگلے پچھلے انسا ن اور جن‘ اگرسب کے سب اپنے میں سے متقی ترین دل والے شخص کی مانند بن جائیں تو اس سے میری حکومت میں بالکل اضافہ نہ ہو گا. میرے بندو! اگر تم میں سے اگلے پچھلے انسان اور جن‘ سب کے سب اپنے میں سے فاجر ترین دل والے شخص کی مانند بن جائیں تو اس سے میری حکومت میں بالکل کمی نہیں آئے گی. میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے انسان اور جن‘ تمام کے تمام کھلے میدان میں کھڑے ہو کر مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو اُس کے مانگنے کے مطابق دیتا جاؤں تو اس سے میرے خزانوں میں بس اتنی سی کمی آئے گی جتنی سمندر میں سوئی 
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تحریم الظلم. ڈبو کر نکالنے سے سمندر میں کمی آتی ہے. میرے بندو! یہ تو تمہارے ہی اعمال ہیں جن کو میں تمہارے لیے محفوظ کر رہا ہوں ‘پھر میں تمہیں ان ہی کی پوری پوری جزا دوں گا ‘پس جو شخص اچھا نتیجہ پائے وہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور جسے اچھا نتیجہ نہ ملے تو وہ صرف اپنے آپ ہی کو ملامت کرے.‘‘

معزز سامعین کرام!
یہ جو طویل حدیث میں نے آپ کو سنائی ہے‘ یہ اربعین نووی کی حدیث ۲۴ ہے اور یہ حدیث قدسی ہے. حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں حضور کا یہ فرمان ہم حدیث ۱۸ کے مطالعہ میں پڑھ چکے ہیں:
 مَنْ سَرَّہٗ اَنْ یَنْظُرَ اِلٰی تَوَاضُعِ عِیْسٰی فَلْیَنْظُرْ اِلٰی اَبِیْ ذَرٍّ ’’جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زہد و تقویٰ دیکھے تو وہ ابوذر کودیکھ لے‘‘اس حدیث قدسی کو حضور سے روایت کرتے ہیں. آپ نے اس طویل حدیث قدسی کے الفاظ سے یہ کیفیت محسوس کی ہوگی کہ اس میں اللہ تعالیٰ کااپنے بندوں سے خطاب کا بڑا ہی محبت بھرا اور بڑی ہی شفقت والا انداز ہے.