حدیث27-26-25 صدقے کا حقیقی مفہوم اور نیکی اور گناہ کی پہچان

۱۸/اپریل ۲۰۰۸ء کا خطابِ جمعہ 
خطبہ ٔمسنونہ کے بعد
 
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ3 

اِنَّ الۡمُصَّدِّقِیۡنَ وَ الۡمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقۡرَضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَہُمۡ وَ لَہُمۡ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿۱۸﴾ 
(الحدید) 
وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ 
(البقرۃ:۲۱۹
لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَ الۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا ۚ وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾ 
(البقرۃ) 
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ص اَنَّ نَاسًا مِّنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ  قَالُوْا لِلنَّبِیِّ  : 
یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ذَھَبَ اَھْلُ الدُّثُوْرِ بِالْاُجُوْرِ‘ یُصَلُّوْنَ کَمَا نُصَلِّیْ ‘ وَیَصُوْمُوْنَ کَمَا نَصُوْمُ ‘ وَیَتَصَدَّقُوْنَ بِفُضُوْلِ اَمْوَالِھِمْ‘ قَالَ : 
أَوَ لَـیْسَ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَـکُمْ مَا تَصَدَّقُوْنَ بِہٖ؟ اِنَّ بِکُلِّ تَسْبِیْحَۃٍ صَدَقَۃً ‘ وَکُلِّ تَـکْبِیْرَۃٍ صَدَقَۃً ‘ وَکُلِّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَۃً‘ وَکُلِّ تَھْلِیْلَۃٍ صَدَقَۃً ‘ وَاَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَۃٌ ‘ وَنَھْیٌ عَنْ مُّنْکَرٍ صَدَقَۃٌ ‘ وَفِیْ بُضْعِ اَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ قَالُوْا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! أَیَاْتِیْ اَحَدُنَا شَھْوَتَہٗ وَیَـکُوْنُ لَہٗ فِیْھَا اَجْرٌ؟ قَالَ : أَرَاَیْتُمْ لَوْ وَضَعَھَا فِی حَرَامٍ‘ أَکَانَ عَلَیْہِ وِزْرٌ؟ فَـکَذٰلِکَ اِذَا وَضَعَھَا فِی الْحَلَالِ کَانَ لَہٗ اَجْرٌ (۱

سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے چند صحابہ ؓ نے آنحضرت سے عرض کیا: 

’’یارسول اللہ ! اہل ثروت تو اجر و ثواب میں سبقت لے گئے ‘کیونکہ وہ ہماری طرح نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں اور اپنے زائد مال میں سے صدقہ (بھی) کرتے ہیں (مال نہ ہونے کے سبب ہم صدقہ کرنے سے قاصر ہیں). آپ نے فرمایا: ’’کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں بھی صدقے کا سامان مہیا نہیں کیا؟ تمہارا ایک دفعہ ’سبحان اللہ‘ کہنا صدقہ ہے‘ تمہارا ایک دفعہ ’اللہ اکبر‘ کہنا صدقہ ہے‘ ایک دفعہ’الحمد للہ‘ کہنا صدقہ ہے‘ایک دفعہ ’لا الہ الا اللہ‘ کہنا صدقہ ہے‘ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے‘ اور ہم بستری کرنے میں بھی صدقہ کا ثواب ہے‘‘. صحابہؓ نے کہا: یارسول اللہ! ہم میں سے کوئی شخص اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرے تو اسے بھی ثواب ملتا ہے؟ آپ نے فرمایا:’’کیا خیال ہے ‘اگر وہ اسے حرام جگہ استعمال کرے تو اسے گناہ نہ ہو گا؟ ایسے ہی حلال مقام پر استعمال کرنے پر اجر بھی ملے گا.‘‘ 


عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  : 

کُلُّ سُلَامٰی مِنَ النَّاسِ عَلَیْہِ صَدَقَۃٌ ‘ کُلَّ یَوْمٍ تَطْلُعُ فِیْہِ الشَّمْسُ قَالَ: تَعْدِلُ بَیْنَ الْاِثْنَیْنِ صَدَقَۃٌ ‘ وَتُعِیْنُ الرَّجُلَ فِیْ دَابَّـتِہٖ فَتَحْمِلُہٗ عَلَیْھَا‘ اَوْ تَرْفَعُ لَہٗ عَلَیْھَا مَتَاعَہٗ ‘ صَدَقَۃٌ قَالَ : وَالْـکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ صَدَقَۃٌ‘ وَکُلُّ خُطْوَۃٍ تَمْشِیْھَا اِلَی الصَّلَاۃِ صَدَقَۃٌ‘ وَتُمِیْطُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ (۲(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الزکوٰۃ‘ باب بیان ان اسم الصدقۃ یقع علٰی کل نوع من المعروف.
(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب من اخذ بالرکاب ونحوہ.صحیح مسلم‘ کتاب الزکوٰۃ‘ باب بیان ان اسم الصدقۃ یقع علٰی کل نوع من المعروف.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

’’انسان پر ہر جوڑ کی طرف سے روزانہ صدقہ کرنا ضروری ہے. دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے‘ سواری کے بارے میں کسی سے تعاون کرنا یعنی سواری پر سوار کرنا یا کسی کا سامان لاد کر اس کی مدد کرنا صدقہ ہے‘ اچھی بات صدقہ ہے‘ نماز کے لیے اُٹھنے والا ہر قدم صدقہ ہے‘ راستہ سے ایذا اور تکلیف دینے والی چیز کو ہٹانا بھی صدقہ ہے.‘‘ 

عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ ص ‘ عَنِ النَّبِیِّ  قَالَ : 

اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ ‘ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ نَفْسِکَ وَکَرِھْتَ اَنْ یَّطَّلِـعَ عَلَیْہِ النَّاسُ 
(۱

سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا: 
’’اصل نیکی ’حسن اخلاق‘ ہے ‘اور ’گناہ‘ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تو چاہتا ہو کہ لوگوں کو اس کی خبر نہ ہو.‘‘ 

وَعَنْ وَابِصَۃَ بْنِ مَعْبَدٍ ص قَالَ : اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ  فَقَالَ: 

جِئْتَ تَسْاَلُ عَنِ الْبِرِّ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ‘ قَالَ : اسْتَفْتِ قَلْبَکَ‘ الْبِرُّ مَا اطْمَاَنَّتْ اِلَیْہِ النَّفْسُ وَاطْمَاَنَّ اِلَـیْہِ الْقَلْبُ ‘ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِی النَّـفْسِ وَتَرَدَّدَ فِی الصَّدْرِ‘ وَاِنْ اَفْتَاکَ النَّاسُ وَاَفْـتَوْکَ (۲
اور حضرت وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے فرمایا:

’’تم نیکی کے متعلق پوچھنے آئے ہو (کہ نیکی کیا ہے)؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا:’’اپنے دل سے پوچھ لو! جس کام پر انسان کا دل مطمئن ہو وہ نیکی ہے اور جو چیز دل میں کھٹکے اور اس کے متعلق سینہ میں تردد ہو‘ وہ گناہ ہے. خواہ لوگ تمہیں اس کے جواز کا بار بار فتویٰ ہی کیوں نہ دیں!‘‘

(۱) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تفسیر البر والاثم. 
(۲) سنن الدارمی‘ کتاب البیوع‘ باب دع ما یریبک الی ما لا یریبک .و مسند احمد‘ کتاب مسند الشامیین‘ باب حدیث وابصۃ بن معبد الاسدی نزل الرقۃ‘ ح۱۷۳۲۰.

معزز سامعین کرام!
اسلام کو دین توحید کہا جاتا ہے اور اس کی توحیدی شان کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ اس میں دین اور دنیا میں کوئی جدائی نہیں ہے.اگر آدمی صرف دنیا کو دین کے تابع کر لے تو یہ ایک ہی وحدت بن جاتے ہیں.اس کے بعد ہر وہ کام جسے ہم دنیاداری یا خالص جسمانی اور حیوانی تقاضے سمجھتے ہیں‘ وہ سبھی دینداری میں شمار ہوں گے. یہ بات عبادت کے تصور سے بھی واضح ہو جاتی ہے . سورۃ الذاریات میں فرمایا گیا: 
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں‘‘.اب اگر اس عبادت سے نماز‘روزہ مراد ہے توپھر چوبیس گھنٹے نماز پڑھنی چاہیے اورہر روز روزہ رکھنا چاہیے.ظاہر بات ہے کہ ایسا ممکن نہیں‘ تو یہاںعبادت سے مراد یہ ہے کہ تم اپنی پوری زندگی کو اللہ کے تابع کردو تو پھر رزقِ حلال کے حصول کے لیے تمہارا جدوجہد کرنا‘ تمہارا کمانا‘ اپنے اہل و عیال کے لیے تمہاراخرچ کرنا‘یہاں تک کہ اپنی بیویوں سے ہم بستری کرنا بھی عبادت شمار ہوگا. یہ تصور آپ کو دین اسلام کے علاوہ دنیا میں کہیں نہیں ملے گا آج جو تین احادیث (۲۵۲۶۲۷)ہمارے زیر مطالعہ آئیں گی‘ وہ اس موضوع کے اعتبار سے بہت اہم ہیں.