سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’انسان پر ہر جوڑ کی طرف سے روزانہ صدقہ کرنا ضروری ہے. دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے‘ سواری کے بارے میں کسی سے تعاون کرنا یعنی سواری پر سوار کرنا یا کسی کا سامان لاد کر اس کی مدد کرنا صدقہ ہے‘ اچھی بات صدقہ ہے‘ نماز کے لیے اُٹھنے والا ہر قدم صدقہ ہے‘ راستہ سے ایذا اور تکلیف دینے والی چیز کو ہٹانا بھی صدقہ ہے.‘‘
عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ ص ‘ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ :
اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ ‘ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ نَفْسِکَ وَکَرِھْتَ اَنْ یَّطَّلِـعَ عَلَیْہِ النَّاسُ (۱)
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’اصل نیکی ’حسن اخلاق‘ ہے ‘اور ’گناہ‘ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تو چاہتا ہو کہ لوگوں کو اس کی خبر نہ ہو.‘‘
وَعَنْ وَابِصَۃَ بْنِ مَعْبَدٍ ص قَالَ : اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ:
جِئْتَ تَسْاَلُ عَنِ الْبِرِّ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ‘ قَالَ : اسْتَفْتِ قَلْبَکَ‘ الْبِرُّ مَا اطْمَاَنَّتْ اِلَیْہِ النَّفْسُ وَاطْمَاَنَّ اِلَـیْہِ الْقَلْبُ ‘ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِی النَّـفْسِ وَتَرَدَّدَ فِی الصَّدْرِ‘ وَاِنْ اَفْتَاکَ النَّاسُ وَاَفْـتَوْکَ (۲)
اور حضرت وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے فرمایا:
’’تم نیکی کے متعلق پوچھنے آئے ہو (کہ نیکی کیا ہے)؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں! آپﷺ نے فرمایا:’’اپنے دل سے پوچھ لو! جس کام پر انسان کا دل مطمئن ہو وہ نیکی ہے اور جو چیز دل میں کھٹکے اور اس کے متعلق سینہ میں تردد ہو‘ وہ گناہ ہے. خواہ لوگ تمہیں اس کے جواز کا بار بار فتویٰ ہی کیوں نہ دیں!‘‘
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تفسیر البر والاثم.
(۲) سنن الدارمی‘ کتاب البیوع‘ باب دع ما یریبک الی ما لا یریبک .و مسند احمد‘ کتاب مسند الشامیین‘ باب حدیث وابصۃ بن معبد الاسدی نزل الرقۃ‘ ح۱۷۳۲۰.
معزز سامعین کرام!
اسلام کو دین توحید کہا جاتا ہے اور اس کی توحیدی شان کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ اس میں دین اور دنیا میں کوئی جدائی نہیں ہے.اگر آدمی صرف دنیا کو دین کے تابع کر لے تو یہ ایک ہی وحدت بن جاتے ہیں.اس کے بعد ہر وہ کام جسے ہم دنیاداری یا خالص جسمانی اور حیوانی تقاضے سمجھتے ہیں‘ وہ سبھی دینداری میں شمار ہوں گے. یہ بات عبادت کے تصور سے بھی واضح ہو جاتی ہے . سورۃ الذاریات میں فرمایا گیا: وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں‘‘.اب اگر اس عبادت سے نماز‘روزہ مراد ہے توپھر چوبیس گھنٹے نماز پڑھنی چاہیے اورہر روز روزہ رکھنا چاہیے.ظاہر بات ہے کہ ایسا ممکن نہیں‘ تو یہاںعبادت سے مراد یہ ہے کہ تم اپنی پوری زندگی کو اللہ کے تابع کردو تو پھر رزقِ حلال کے حصول کے لیے تمہارا جدوجہد کرنا‘ تمہارا کمانا‘ اپنے اہل و عیال کے لیے تمہاراخرچ کرنا‘یہاں تک کہ اپنی بیویوں سے ہم بستری کرنا بھی عبادت شمار ہوگا. یہ تصور آپ کو دین اسلام کے علاوہ دنیا میں کہیں نہیں ملے گا آج جو تین احادیث (۲۵‘۲۶‘۲۷)ہمارے زیر مطالعہ آئیں گی‘ وہ اس موضوع کے اعتبار سے بہت اہم ہیں.