حدیث 29 - ابوابِ خیر (حکمت اور بھلائی کے دروازے)

۹/مئی ۲۰۰۸ء کا خطابِ جمعہ 
خطبہ ٔمسنونہ کے بعد

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ3 

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ 

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ص قَالَ کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ فِی سَفَرٍ فَأَصْبَحْتُ یَوْمًا قَرِیبًا مِنْہُ وَنَحْنُ نَسِیْرُ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَخْبِرْنِیْ بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِی الْجَنَّۃَ وَیُبَاعِدُنِیْ عَنِ النَّارِ ‘ قَالَ : 

لَـقَدْ سَأَلْتَ عَنْ عَظِیْمٍ‘ وَاِنَّہٗ لَـیَسِیْـرٌ عَلٰی مَنْ یَّسَّرَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ : تَعْبُدُ اللّٰہَ لَا تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا، وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ، وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ، وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ الْبَیْتَ ثُمَّ قَالَ : اَلَا اَدُلُّکَ عَلٰی اَبْوَابِ الْخَیْرِ؟ اَلصَّوْمُ جُنَّـۃٌ، وَالصَّدَقَۃُ تُطْفِیُٔ الْخَطِیْئَۃَ کَمَا یُطْفِیُٔ الْمَائُ النَّارَ، وَصَلَاۃُ الرَّجُلِ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ ثُمَّ تَلَا تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ حَتّٰی بَلَغَیَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۷﴾ (السجدۃ:۱۶۱۷ثُمَّ قَالَ : اَلَا اُخْبِرُکَ بِرَأْسِ الْاَمْرِ وَعَمُوْدِہٖ وَذِرْوَۃِ سَنَامِہٖ؟ قُلْتُ : بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ : رَأْسُ الْاَمْرِ الْاِسْلَامُ‘ وَعَمُوْدُہُ الصَّلَاۃُ، وَذِرْوَۃُ سَنَامِہِ الْجِھَادُ ثُمَّ قَالَ : اَلَا اُخْبِرُکَ بِمَلَاکِ ذٰلِکَ کُلِّہٖ؟ فَقُلْتُ : بَلٰی : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَاَخَذَ بِلِسَانِہٖ وَقَالَ : کُفَّ عَلَیْکَ ھٰذَا قُلْتُ : یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! وَاِنَّا لَمُؤَاخَذُوْنَ بِمَا نَتَـکَلَّمُ بِہٖ؟ فَقَالَ : ثَـکِلَتْکَ اُمُّکَ یَا مُعَاذُ! وَھَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ اَوْ قَالَ عَلٰی مَنَاخِرِھِمْ، اِلاَّ حَصَائِدُ اَلْسِنَتِھِمْ (۱

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم کے ساتھ ایک سفر میں تھا. ایک صبح ہم سب چل رہے تھے تومیں آپؐ کے قریب ہوگیا.میں نے عرض کیا : یارسول اللہ !مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں لے جائے اور جہنم سے دور کر دے. آپؐ نے فرمایا:

’’تو نے ایک انتہائی اہم چیز کا سوال کیا ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ جس کے لیے آسان فرما دے اس کے لیے بلاشبہ یہ بڑا آسان کام ہے. اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو‘اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ‘ نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ ادا کرتے رہو‘ رمضان کے روزے رکھو‘اور بیت اللہ کا حج کرو‘‘. پھرآپنے فرمایا:’’کیا میں تجھے نیکی کے دروازے نہ بتاؤں؟روزہ(جہنم سے)ڈھال ہے. صدقہ گناہوں کو یوں مٹا ڈالتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور انسان کا رات کے درمیان میں نماز ادا کرنا(بہت فضیلت کا باعث ہے) .اور پھر آپؐ نے سورۃ السجدۃ کی یہ آیات(۱۶۱۷) تلاوت فرمائیں: ’’اہل ایمان کے پہلو (رات کو) بستر سے علیحدہ رہتے ہیں اور وہ اپنے رب کو اس کے عذاب کے خوف اور رحمت کی امید کے ملے جلے جذبات و کیفیات سے پکارتے ہیں اور ہم نے انہیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں. کوئی نہیں جانتا کہ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ تیار کر رکھا ہے. یہ سب ان کے کیے ہوئے اعمال کی جزا اور بدلہ ہو گا‘‘. پھر آپ نے فرمایا: ’’کیا میں تجھے دین کی بنیاد‘ اس کا ستون اور اس کا بلند ترین عمل نہ بتا دوں؟‘‘ میں نے کہا: یارسول اللہ ! کیوں نہیں! 
(۱) سنن الترمذی‘ ابواب الایمان‘باب ماجاء فی حرمۃ الصلاۃ.قال ابو عیسیٰ ہذاحدیث حسن صحیح. آپ نے فرمایا: ’’دین کی بنیاد ’اسلام‘ ہے‘ اس کا ستون ’نماز‘ ہے اور افضل و بلندترین عمل ’جہاد‘ ہے. پھرآپ نے فرمایا:’’کیا میں تجھے ان تمام اعمال کی بنیاد اور اصل کی خبر نہ دوں؟‘‘ میں نے کہا:’’جی ہاں‘ یارسول اللہ! کیوں نہیں! تو آپؐ نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا:’’اسے قابو میں رکھو‘‘.(حضرت معاذؓ کہتے ہیں کہ)میں نے کہا:اے اللہ کے نبی ! ہم جو کچھ بولتے ہیں کیا اس پر بھی ہمارامواخذہ ہو گا؟ آپؐ نے فرمایا:’’اے معاذ! تجھے تیری ماں گم پائے‘ لوگوں کو ان کے چہروں (یانتھنوں) کے بل جہنم میں سب سے زیادہ ان کی زبانوں کی کٹائی (کمائی) ہی تو لے جائے گی.‘‘

معزز سامعین کرام!
آج ہمارے زیر مطالعہ اربعین نووی کی حدیث نمبر۲۹ ہے ‘جس میں حکمت اور بھلائی کی بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں. اس کے ضمن میں‘میں نے سورۃ الحجرات کی دو آیات تلاوت کی ہیں. یہ آیات اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں اسلام اور ایمان کے فرق کوواضح کیا گیا ہے ‘جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک الگ چیز ہے اور ایمان الگ فرمایا گیا: 

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ 

’’بدو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے. (اے نبی !) آپ ان سے فرمادیجیے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو‘ ہاں تم یوں کہہ سکتے ہو کہ ہم اسلام لے آئے‘ لیکن ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.اوراگر تم اس حال میں بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو گے تو اللہ تمہارے اعمال (کی جزا) میں سے کوئی کمی نہیں کرے گا.(اور یہ اس لیے ہے کہ) بے شک اللہ بہت بخشنے والا‘ رحم کرنے والا ہے.‘‘

اس آیت میں اسلام اور ایمان کا فرق بیان کیا گیا ہے‘جبکہ اگلی آیت میں مؤمن کی 
تعریف بیان کی گئی ہے .فرمایا

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ 

’’(اللہ کے نزدیک )مؤمن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ پراور اُس کے رسولؐ پر ‘پھر شک میں ہر گز نہیں پڑے( یعنی ا ن کی تصدیق قلب‘ یقین قلب کی شکل اختیار کر لے)اور انہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں.یہی لوگ ہیں جو (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں.‘‘