حدیث32-33 اسلام میں عدل و انصاف کی اہمیت اور اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی

۱۳جون۲۰۰۸ء کا خطابِ جمعہ 
خطبہ ٔمسنونہ کے بعد

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ 
(الحجرات:۱۳
وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۹﴾ 
(البقرۃ) 
عَنْ اَبِی سَعِیْدٍ سَعْدِ بْنِ سِنَانِ الْخُدْرِیِّ ص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ  قَالَ : 

لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ (۱

سیدنا ابوسعید سعد بن سنان خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
’’نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ خود نقصان اٹھاؤ!‘‘ 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ‘ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ  قَالَ : 

لَـوْ یُعْطَی النَّاسُ بِدَعْوَاھُمْ ‘ لَادَّعٰی رِجَالٌ اَمْوَالَ قَوْمٍ وَّدِمَائَ ھُمْ‘ وَلٰـکِنَّ الْبَـیِّنَۃَ عَلَی الْمُدَّعِیْ وَالْیَمِیْنُ عَلٰی مَنْ اَنْکَرَ (۲
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: (۱) حدیث حسن رواہ ابن ماجۃ والدارقطنی وغیرھما مسندا‘ ورواہ مالک فی المؤطا عن عمرو بن یحیی عن ابیہ عن النبی  مُرْسَلًا فاسقط اباسعید‘ ولہ طرق یقوی بعضھا ببعض
(۲) حدیث حسن‘ رواہ البیھقی وغیرہ ھکذا‘ وبعضہ فی الصحیحین 
’’اگر لوگوں کو ان کے دعویٰ کے مطابق (بلاتحقیق) دے دیا جائے تو لوگ دوسروں کے اموال اور خون پر دعویٰ کرنے لگیں ‘لہٰذا اصول یہ ہے کہ مدعی ثبوت پیش کرے اور مدعا علیہ اگر انکاری ہو تو قسم اٹھائے.‘‘

معزز سامعین کرام!
اربعین نووی کی احادیث کا سلسلہ وار مطالعہ جاری ہے اور آج ہم حدیث ۳۲ ا ور ۳۳ کا مطالعہ کریں گےاحادیث کے مطالعہ سے پہلے جان لیجیے کہ اس مجموعہ احادیث کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ اس میں دین اورزندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے. اس مجموعہ احادیث میں صرف ۴۲ احادیث ہیں‘لیکن دین اور زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو اس میں بیان ہونے سے رہ گیا ہو. دین کی اصل روح کیا ہے‘دین کا اصل ڈھانچہ کیا ہے‘ دین کا پورانقشہ درخت یا عمارت کی صورت میں کیا ہے‘ اخلاقیات کے کیااصول ہیں‘ شریعت کی بنیاد کیا ہے‘حلال اور حرام کے مابین مشتبہات کے بارے میں کیا رویہ ہونا چاہیے وغیرہ‘ یہ سب اس مجموعہ میں موجود ہے.

آج ہمارے زیرمطالعہ دواحادیث ہیں جو نظامِ عدل سے متعلق ہیں. اصل میں لفظ عدل مختلف سطحوں پر مختلف معنی رکھتا ہے. ایک ہے عدلِ اجتماعی کہ سیاسی نظام ایسا نہیں ہونا چاہیے جس میں کسی خاص خاندان یا خاص طبقے کی رعایت ملحوظ ہو بلکہ وہ تمام عوام کے لیے بہترین ہونا چاہیے. ہر ایک کو اظہارِ رائے کی بھی آزادی ہواور جماعت بنانے کی بھی.یہ نہ ہو کہ ایک شخص بادشاہ بن کر بیٹھا ہوا ہے یا ایک خاندان اختیارات پر قابض ہے یا کوئی ایک خاص طبقہ باقی لوگوں پر حکمرانی کررہا ہے. یہ سب اجتماعی اور سیاسی سطح پر ظلم ہے جس کی تلافی بہرصورت ہونی چاہیے اور اسلام اس کی بالکل اجازت نہیں دیتا.