۲۰جون۲۰۰۸ء کا خطابِ جمعہ 
خطبہ ٔمسنونہ کے بعد

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿ۚ۱۷﴾ 
(لقمٰن) 
اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾ 
(الحج) 
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ 
(آل عمران:۱۱۰
وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾ 
(آل عمران) 
لَوۡ لَا یَنۡہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحۡبَارُ عَنۡ قَوۡلِہِمُ الۡاِثۡمَ وَ اَکۡلِہِمُ السُّحۡتَ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ ﴿۶۳﴾ 
(المائدۃ) 
کَانُوۡا لَا یَتَنَاہَوۡنَ عَنۡ مُّنۡکَرٍ فَعَلُوۡہُ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۷۹﴾ 
(المائدۃ) 
فَلَمَّا نَسُوۡا مَا ذُکِّرُوۡا بِہٖۤ اَنۡجَیۡنَا الَّذِیۡنَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ السُّوۡٓءِ وَ اَخَذۡنَا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا بِعَذَابٍۭ بَئِیۡسٍۭ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ ﴿۱۶۵﴾ 
(الاعراف) 
فَلَوۡ لَا کَانَ مِنَ الۡقُرُوۡنِ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ اُولُوۡا بَقِیَّۃٍ یَّنۡہَوۡنَ عَنِ الۡفَسَادِ فِی 
الۡاَرۡضِ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّمَّنۡ اَنۡجَیۡنَا مِنۡہُمۡ ۚ (ہود:۱۱۶
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ  قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ  یَـقُوْلُ : 

مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ ‘ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ‘ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ (۱

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: 
’’تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ (طاقت) سے بدلے‘ اگراس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے (منع کرے) اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے (برا جانے)‘ اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے.‘‘

معزز سامعین کرام!
امام یحییٰ بن شرف الدین النووی رحمہ اللہ علیہ کے مشہورمجموعہ احادیث ’’اربعین نووی‘‘ کا سلسلہ وار مطالعہ جاری ہے اوراس ضمن میں آج حدیث ۳۴ ہمارے زیر مطالعہ آئے گی. یہ حدیث امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے ہے اور معاشرے کے اندر اچھائی کو برقرار رکھنے اور برائی کو دبانے کے لیے قرآن مجید کا میکنزم واضح کرتی ہے. ایک تو جرم کامعاملہ ہے‘لیکن بہت سی برائیاں ایسی ہوتی ہیں جو قابل دست اندازی ٔ پولیس نہیں ہوتیں.فرض کیجیے‘ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا تو پولیس اسے نماز پڑھنے پر مجبور نہیں کرسکتی‘البتہ معاشرے کے اندر ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو ایسے شخص کونماز کی تلقین کرتے رہیں اور نہ پڑھنے پر ملامت کرتے رہیں. مزیدیہ کہ اگر آپ کے پاس کوئی اختیار ہے تو آپ اسے سزا بھی دیجیے‘مثلاً آپ کا اپنا بچہ دس سال سے زائد کاہوگیا ہے لیکن وہ نماز میں سستی کرتا ہے تو آپ اسے مارسکتے ہیں اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے کہ دس سال کی عمر کے بعد بھی اگر بچہ نماز نہ پڑھے تو باپ کواجازت ہے کہ وہ اسے مارکر نماز کا پابند بنائے. 

آج مغربی معاشروںمیں تواس کا تصور بھی نہیں ہے. بڑے بچے تو درکنار آپ اپنے چھوٹے سے چھوٹے بچے کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتے.اگر آپ نے ایسا کیا تو وہ فوراً 
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان کون النھی عن المنکرمن الایمان… وسنن الترمذی‘ ابواب الفتن‘باب ماجاء فی تغییر المنکر بالید اوباللسان اوبالقلب. کال کر کے پولیس کو بلالے گا اور پھر پولیس آپ کو لے جائے گی اورآپ کے بچے کو بھی. پھر بچہ مستقل طور پر آپ سے لے لیا جا سکتا ہے کہ آپ اس قابل نہیں ہیں کہ بچے کی پرورش کر سکیں‘اس لیے کہ آپ نے بچے کو مارا ہے اور بچوں کی مار پٹائی ان کے ہاں بہت بڑا جرم ہے.خدانخواستہ کسی کی بیٹی آوارہ ہو گئی ہے تو وہ اسے کچھ نہیں کہہ سکتے.کوئی سزا دینا تو دور کی بات ہے‘ اسے دھمکا بھی نہیں سکتے. لیکن اسلام میں یہ تصور ہے کہ آپ خاندان کے سربراہ ہیں اور آپ اپنی اولاد کو جسمانی سزا دے سکتے ہیں.

اگر آپ کے پاس حکومتی سطح پراختیار ہے تو پھر آپ کا فرض ہے کہ اجتماعی سطح پرایک ایسا ادارہ بنائیں جو امر بالمعروف ونہی عن المنکرکافریضہ سرانجام دے. اسلامی ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے. ہم نے یہ نقشہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سعودی عرب کے اندر نماز کا وقت ہوا اور اذان ہوتے ہی سارے بازار بندہوگئے. وہاں ان کا ایک علیحدہ محکمہ ہے: 
الھیئۃ للامر بالمعروف والنہی عن المنکر‘ جس کا کام ہی لوگوں کو نیکی کا حکم دینا اور بدی سے روکناہے.وہاں کے ’’شرطے‘‘ مشہور ہیں. ہم نے دیکھا کہ وہ کسی سے کچھ کہتے نہیں تھے‘ بس اپنی لاٹھی ٹھک ٹھک کرتے ہوئے آتے تھے اورجیسے جیسے ٹھک ٹھک کی آواز آتی تھی تو سب لوگ دکانیں بند کرکے نماز کے لیے جارہے ہوتے تھے. یہ میں ۱۹۶۲ء کی بات کر رہا ہوں جب مجھے پہلی مرتبہ حج کی سعادت حاصل ہوئی تھی کہ وہاں منی ایکسچینجرز کے ٹیبل عین سڑک کے کنارے لگے ہوتے تھے‘ جن پر ڈالر‘ پاؤنڈ‘ ریال اور دیگر کرنسی نوٹ بڑی تعداد میں پڑے ہوتے تھے‘ اور جیسے ہی اذان ہوتی تو وہ لوگ ان کے اوپر صرف چادر ڈال کر مسجد کی طرف چل پڑتے. ان کو کوئی اندیشہ نہیں تھا کہ چوری ہوجائے گی .میں نے گزشتہ جمعہ یہ بات عرض کی تھی کہ یہاں بھی چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا اگرنافذ ہو جائے تو پھر یہ فضا پیدا ہو جائے گی.