۸/اگست ۲۰۰۸ء کا خطابِ جمعہ
خطبہ ٔمسنونہ کے بعد
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰىنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۸۶﴾٪ (البقرۃ)
مَنۡ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ وَ لٰکِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡکُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۰۶﴾ (النحل)
وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ ﴿٪۲۶﴾ (الرعد)
وَ مَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾ (العنکبوت)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ :
اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ لِیْ عَنْ اُمَّتِی الْخَطَاَ وَالنِّسْیَانَ وَمَا اسْتُکْرِھُوْا عَلَیْہِ (۱) (۱) سنن ابن ماجہ‘ کتاب الطلاق‘ باب طلاق المکرہ والناسی. سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے میری خاطر میری اُمت سے (تین قسم کے کاموں اور گناہوں کو) معاف کر دیا ہے: خطا‘ نسیان اور وہ کام جن کے کرنے پر انسان مجبور کر دیا جائے.‘‘
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما قَالَ : اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ بِمَنْکِبَیَّ فَقَالَ :
کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ
وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ رضی اللہ عنہما یَقُوْلُ : اِذَا اَمْسَیْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ ‘ وَاِذَا اَصْبَحْتَ فَـلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَائَ ‘ وَخُذْ مِنْ صِحَّتِکَ لِمَرَضِکَ ‘ وَمِنْ حَیَاتِکَ لِمَوْتِکَ (۱)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے ‘فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے میرے کندھوں کو پکڑ کر فرمایا:
’’دنیا میں یوں رہو جیسے کہ اجنبی یا راہ چلتا مسافر ہو.‘‘
ابن عمر رضی اللہ عنہماکہا کرتے تھے : ’’شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کیا کرو اور صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو. صحت کو بیماری سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو.‘‘
معزز سامعین کرام!
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم ’’اربعین نووی‘‘ کے اختتام تک پہنچ گئے ہیں اور آج اربعین کی حدیث۳۹ اور ۴۰ ہمارے زیر مطالعہ آئے گی. یہ احادیث اپنے حجم کے اعتبار سے بہت چھوٹی ہیں‘ لیکن معانی کے اعتبار سے گویا کوزے میں دریابند ہے.
پہلی حدیث حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‘وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ لِیْ عَنْ اُمَّتِی الْخَطَاَ وَالنِّسْیَانَ وَمَا اسْتُکْرِھُوْا عَلَیْہِ ’’اللہ تعالیٰ نے میری خاطر میری اُمت سے (تین قسم کے کاموں اور گناہوں کو) معاف کر دیا ہے :(۱)خطا‘ (۲) نسیان‘اور (۳) وہ کام جن کے کرنے پر انہیں مجبور کر دیا گیاہو‘‘.یہ حدیث حسن ہے اور اسے ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے. (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب قول النبیﷺ کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل. زیرمطالعہ حدیث میں پہلی غور طلب بات ہے: تَجَاوَزَ لِیْ عَنْ اُمَّتِی اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ فرمارہے ہیں کہ میری خاطراور میرے لیے اللہ نے میری امت کے لیے یہ رعایت کی ہے. اسے ہم یوںکہہ سکتے ہیں کہ حضورﷺ کے صدقے اللہ نے اس اُمت سے یہ رعایت کی کہ ان تین چیزوں پر کوئی مواخذہ اورمحاسبہ نہیں ہو گا اور نہ ہی کوئی سزاہو گی.