حدیث 42 - رحمت ِالٰہی کی وسعت اور توبہ کی فضیلت

۲۲/اگست ۲۰۰۸ء کا خطابِ جمعہ 
خطبہ ٔمسنونہ کے بعد

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۵۳﴾ 
(الزمر) 
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾ 
(النسائ) 
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۲۱﴾ 
(الاحزاب) 
عَنْ اَنَسٍ ص قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ  یَـقُوْلُ : 

قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی :یَا ابْنَ آدَمَ ! اِنَّکَ مَا دَعَوْتَنِیْ وَرَجَوْتَنِیْ غَفَرْتُ لَکَ عَلٰی مَا کَانَ مِنْکَ وَلَا اُبَالِیْ یَا ابْنَ آدَمَ! لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوْبُکَ عَنَانَ السَّمَائِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِیْ غَفَرْتُ لَکَ یَاابْنَ آدَمَ ! اِنَّکَ لَوْ اَتَـیْتَنِیْ بِقُرَابِ الْاَرْضِ خَطَایَا ثُمَّ لَقِیْتَنِیْ لَا تُشْرِکُ بِیْ شَیْئًا لَاَتَیْتُکَ بِقُرَابِھَا مَغْفِرَۃً 
(۱

سیدناانس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : 
(۱) سنن الترمذی‘ ابواب الدعوات‘ باب فی فضل التوبۃ والاستغفار… ’’اے ابن آدم! جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے امیدیں وابستہ رکھے گا تو میں تجھے معاف کرتا رہوں گا‘چاہے تیرے اعمال جیسے بھی ہوئے‘ اور مجھے تیرے گناہوں کی کوئی پروا نہیں اے ابن آدم! تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں اور تومجھ سے معافی مانگے تو میں تجھے معاف کردوں گا اے ابن آدم! اگر تو اتنے گناہ لے کر آئے کہ روئے زمین بھر جائے تو میں تیری اتنی ہی مغفرت کر دوں گا‘ بشرطیکہ تو نے شرک نہ کیا ہو.‘‘

معزز سامعین کرام!
اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے آج ہم امام یحییٰ بن شرف الدین النووی رحمہ اللہ علیہ کے شہرۂ آفاق مجموعہ احادیث’’اربعین‘‘ کی آخری حدیث کامطالعہ کرنے چلے ہیں. 

آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے بندے کا اعلیٰ ترین مقام یہ ہے کہ وہ ’’ بین الخوف والرجاء ‘‘رہے. یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب ‘ اُس کی سزا اور اُس کی پکڑ کا خوف بھی اُس کے دل میں ہو اورساتھ ہی اُس کی شانِ غفاری اور شانِ رحیمی سے اُمید بھی دل میں موجزن رہے .

خوف اوررجاء بھی من جملہ ان چیزوں میں سے ہے جن میں درمیانی راستہ بہت مشکل ہوتا ہے. بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے درمیان اتنا باریک فرق ہوتا ہے کہ اس کو محاورتاً یوں تعبیر کیا جاتاہے کہ تلوار کی دھار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک.انسان اِدھر بھی ہو سکتا ہے اور اُدھر بھی.یہی معاملہ درحقیقت خوف و رجاء کا ہے. دل اگر اللہ تعالیٰ کے خوف سے خالی ہو گیا تو صرف رجائیت رہ جائے گی‘ یا دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوف کا اتنا غلبہ ہوگیا کہ اُس کی شانِ رحیمی اور شانِ غفاری نظر انداز ہو گئی‘ تو ان دونوں صورتوں میں بربادی ہی بربادی ہے.