اگلی آیت میں اہل تقویٰ کے کچھ اوصاف مذکور ہیں‘جن میں پہلا وصف یہ بیان ہوا ہے: الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ ’’وہ لوگ جو( اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں کشادگی میں بھی اور تنگی میں بھی‘‘ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی دو جہتیں ہیں: (۱) اللہ کی رضا کے لیے اُس کے بندوںمیں سے جو محتاج ہوں اور جن کو کوئی ضرورت لاحق ہو‘ ان کی مدد کرنا. اس مد میں یتیم‘ بیوائیں‘ مساکین اور مقروض سب آ جائیں گے. (۲) دوسرایہ کہ اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا.مثلاً دین کی تعلیم اورتعلّم کاکوئی نظام بنانا‘دین کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے اپنے زمانے میں موجود سارے ذرائع و وسائل کو استعمال کرنااور ان کے لیے خرچ کرنا‘ان سب کا شمار اس دوسری مد میں ہو گا.

آپ کو معلوم ہے کہ آج کل مختلف ممالک میں اسلامی تعلیمات کو اُجاگر کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ٹی وی چینلز چل رہے ہیںاور ظاہر بات ہے کہ لوگوں کی دلچسپی کے لیے انہیں اس میں کچھ چیزیں ایسی بھی شامل کرنی پڑتی ہیں جو لوگوں کی توجہ کا باعث ہوں اور پھر مختلف قسم کے اشتہارات بھی شامل کرنے پڑتے ہیں تاکہ خرچ پورا ہو سکے. لیکن اس وقت پوری دنیا میںکم سے کم ایک مکمل ٹی وی چینل ایسا ہے جس کی بنیاد خالصتاً دین پر رکھی گئی ہے اور یہ چینل ’’پیس ٹی وی‘‘ ہے جو ڈاکٹر ذاکر نائیک نے شروع کیا اور اس کے ساتھ بہت لوگوں نے تعاون کیا ہے.پھراِس چینل کو چلانے کے لیے انہیں کتنا خرچ پڑا‘ اس کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے. کروڑوں روپے چاہئیں ہوتے ہیں کسی بھی چینل کو چلانے کے لیے. خاص طور پر’’پیس ٹی وی‘‘ جیسیاسلامی چینل کوچلانااور بھی مشکل ہے‘ اس لیے کہ اس میںکوئی قابل اعتراض اشتہار نہیں چلتا‘ کسی بینک یا کسی انشورنس کمپنی کا اشتہار نہیں چلایا جاتا اورنہ ہی کسی عورت کی تصویر دی جاتی ہے. اس چینل پراشتہار بھی صرف وہی آئے گا جو ہر طرح کے حرام کاروبارسے خالص اورپاک ہو.اگر کوئی ایسا اشتہار ہے تووہ اس چینل پر چلے گا ‘ورنہ نہیں‘ جبکہ ابتدا میں تو اُن کے پاس ایسا کوئی اشتہار تھا ہی نہیں. بہرحال میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی دو جہتیں ہیں: ایک ہے ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنا اور دوسراہے دین کی ترویج اور نشرو اشاعت کے لیے کسی طور پر بھی خرچ کرنا.

آیت کے اس ٹکڑے کے حوالے سے دوسری نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اس میں فرمایا گیا : فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ یعنی اہل تقویٰ وہ ہیں جو اللہ کی راہ میں خوشحالی اور تنگی دونوں صورتوں میں خرچ کرتے ہیں.خوشحالی کے دنوں میں تو آدمی کے پاس کافی مال ہوتاہے اور ایسی صورتِ حال میں اگروہ اللہ کی راہ میں خرچ کر رہا ہے تو اس کی طبیعت پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا‘ لیکن اگر خود تنگی محسوس کر رہا ہے اور پھر بھی خرچ کررہا ہے تو یہ گویا اس سے اگلا اور مستحسن قدم ہے.