اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ غصہ آجانا ایک فطری بات ہے ‘اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے غصہ انسان کی فطرت میں رکھا ہے. اس اعتبار سے حضرت حسن بصریؒ کا ایک قول بڑا حکیمانہ ہے . وہ فرماتے ہیں کہ غصے کے حوالے سے انسان تین قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو وہ ہے جو پورا اور مکمل انسان ہے ‘ ایک وہ ہے جو آدھا انسان ہے‘ یعنی جو انسانیت کے معیار پر مکمل پورا نہیں اترتا‘ البتہ نصف تک آ جاتا ہے. جبکہ تیسرا ان دونوں کے برعکس ہے اور وہ ہے: لَـیْسَ بِرَجُلٍ یعنی اُس میں انسانیت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں‘ بلکہ وہ حیوان ہے . پورا انسان تو وہ ہوتا ہے جسے دیر میں غصہ آئے اور جلدی رفع ہو جائے. آدھا انسان وہ ہے جسے غصہ جلدی آئے اور جلدی رفع ہو جائے یا دیر میں غصہ آئے اور دیر میں رفع ہو.یعنی جلدی غصہ آیا اور جلدی ختم بھی ہو گیا‘ یا دیر میں غصہ آیا اور جانے میں بھی دیر لگا دی تو یہ دونوں برابر ہیں. تیسرا شخص وہ ہے کہ جسے جلدیغصہ آئے اور دیر میں جائے.ایسا انسان اخلاقی اعتبار سے انسان کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہے. لہٰذا غضب کے اعتبار سے یہ تین درجے ہمارے سامنے ضرور رہنے چاہئیں اور ہمیں مکمل انسان بننے کی کوشش کرنی چاہیے.