اس حوالے سے یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مختلف مزاج بنائے ہیں. بعض میں جمال اور رحم کا عنصر زیادہ ہوتا ہے‘ جبکہ بعض لوگ جلالی مزاج کے ہوتے ہیں . طبائع اور مزاج کا یہ فرق ہمارے بزرگوں اور دین دار لوگوں میں بھی ہوتا ہے‘حتیٰ کہ انبیاء ورسل علیہم السلاممیں بھی یہ فرق نمایاں ہے. مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام جلالی طبیعت کے آدمی تھے . ان کی جلالی طبیعت کو واضح کرنے والے کئی واقعات قرآن حکیم میں مذکور ہیں. ایک واقعہ تو بہت معروف ہے کہ ایک قبطی اور ایک اسرائیلی کا کسی بات پر جھگڑا ہو رہا تھا . حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں سے گزرے تو اسرائیلی نے آپؑ سے مدد مانگی. اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس قبطی کو ایک مکا رسید کیا اور اس کی جان نکال دی.

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جلال کا سب سے بڑا نقشہ جو قرآن مجید میں آتا ہے وہ بنی اسرائیل کے شرک میں ملوث ہونے کے موقع پر تھا جب آپ کوہِ طور پر گئے ہوئے تھے. جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ہجرت کی اجازت دی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکل آئے‘اللہ تعالیٰ نے سمندر کو پھاڑ کر بنی اسرائیل کو پار گزار دیا.اس کے بعد وہ مرحلہ آیا کہ انہیں شریعت دی جائے . اس لیے کہ یہ اللہ کا قانون ہے کہ ہجرت کے بعد شریعت آتی ہے‘ جبکہ ہجرت سے پہلے کا وقت تو ایک کشاکش کے اندرگزرتا ہے.

یہی قانون ہمیں سیرتِ محمدی میں بھی نمایاں نظرآتا ہے‘ بایںطور کہ آپؐ کے مکہ کے بارہ سال ایک کشاکش (جسے عام طور پرکشمکش کہہ دیتے ہیں) اور ایک ِجدوجہد میں گزرے ہیں. اس میں مصیبتیں ہیں‘ تکلیفیں ہیں‘ ماریں کھائی جا رہی ہیں‘ وغیرہ وغیرہ‘لیکن اس دور میں تفصیلی شریعت نہیں تھی ‘اس لیے کہ ابھی تفصیلی شریعت دیے جانے کا موقع نہیں تھا. سن گیارہ نبوی میں ہجرت سے ایک ڈیڑھ سال پہلے نماز فرض ہوئی ہے. اس کے علاوہ اُس وقت تک زکوٰۃ کا بھی کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا کہ اتنے مال میں اتنی زکوٰۃ ہے.البتہ لفظ زکوٰۃ اُس دور میں اگر آیا ہے تو وہ عام مفہوم میں استعمال ہوا ہے کہ اپنے اموال میں سے صدقہ خیرات نکال کر اُسے پاک کرتے رہو. الغرض ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے لیے شریعت نازل ہوئی .اس شریعت کا ابتدائی خاکہ (بلیوپرنٹ) سورۃ البقرۃ میں تیار ہوا ہے‘جبکہ سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ اس کی تکمیل کی سورتیں ہیں.[ آپ میں سے بہت سے حضرات جانتے ہوں گے کہ کوئی بھی عمارت بنانی ہو تو اس کا جو نقشہ بنتا ہے وہ نیلے کاغذ پر بنتا ہے اور اس کو بلیو پرنٹ (یا ایمونیا پرنٹ)کہا جاتا ہے.

بہرحال جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کوہِ طور پر چالیس دن کے لیے طلب کیا اس کو ہم ِچلہ ّبھی کہہ سکتے ہیں‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان سے چالیس روز کی ریاضت کروائی اور عبادت و ذکر ِالٰہی کرایا اس کے بعد انہیں اللہ نے تورات عطا فرمادی.اس ضمن میں آپ کو یاد آجانا چاہیے کہ محمد ٌرسول اللہ سے بھی قرآن مجید کے نزول سے قبل اسی طرح کا معاملہ غار حرا میں کیا گیا . آپؐ کی وہاں پر جو خلوت گزینی ہوتی تھی اور وہاں پر آپؐ جو بھی عبادات کیا کرتے تھے اس کی تفصیلات تو ہمیں معلوم نہیں ہیں‘ لیکن یہ ضرور ہے کہ آپؐ نے تخلیہ فرمایا.غارِ حرامیں آپ کے اس تخلیہ کے حوالے سے عام طو رپر محدثین یہ کہتے ہیں : کان صفۃ تعبّدہ فی غار حراء التفکر والاعتبارکہ غارِ حرا میں آپ کی عبادت دراصل غور و فکر پر مشتمل تھی. آپؐ غور وفکر کرتے تھے کہ یہ کائنات کیا ہے‘ اس کا نظام کون چلا رہا ہے‘ ہمارا معاشرہ کدھر جا رہا ہے‘ یہ خرابیاں کیوں بڑھ رہی ہیں‘ انسان انسان کا خون کیوںکرتا ہے؟ یہ کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور کچھ لوگوں کے پاس بہت دولت جمع ہو گئی ہے.الغرض غارِ حرا میں آپؐ کی عبادات کی حقیقت اور تفصیلات اگرچہ ہمیں معلوم نہیں ہیں‘مگر بہرحال تخلیہ اور غار میں آپ کا قیام اپنی جگہ ثابت ہے.