حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قوم پر انتہائی غضب ناک ہونا

اللہ تعالیٰ نے جب موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے شرک کی خبر سنائی توآپؑ انتہائی غصے کے عالم میں اپنی قوم میں واپس آئے.اس کے لیے قرآن میں جو الفاظ آئے ہیں وہ سورۃ الاعراف‘آیت۱۵۰ میں مذکورہیں: وَ لَمَّا رَجَعَ مُوۡسٰۤی اِلٰی قَوۡمِہٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ’’اور موسیٰ ؑاپنی قوم میں نہایت غصے اور افسوس کی حالت میں واپس آئے‘‘ غَضْبان‘ غضب کی انتہائی شکل ہے اوراس وزن پر عربی زبان میں جو بھی الفاظ آتے ہیں وہ کسی شے کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں.مثلاً اَنَا جَوْعَانُ ( میں انتہائی بھوکا ہوں)‘ اَنَا عَطْشَان (میں پیاس سے مرا جا رہا ہوں). اور رَحْمان وہ ہستی ہے جس میں رحم کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند ہو.اسی طرح انتہائی غصے کی کیفیت کو ’’غضبان‘‘سے تعبیر کیاجاتا ہے او ر اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا غصہ بھی انتہا کوپہنچا ہوا تھا تو اس بنا پر یہاں غضبان کا لفظ آیا ہے.

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب معلوم ہوا کہ اُن کی قوم کے کثیر لوگ اس طریقے سے گمراہ اور مشرک ہو گئے ہیں کہ انہوں نے باقاعدہ ایک بچھڑے کو خدا مان لیا ہے اور اس کی پرستش کر رہے ہیں تو ایک طرف تو آپ انتہائی غضب ناک ہوئے اور دوسری طرف آپ نے قوم کی اس حرکت پر انتہائی افسوس اور رنج کا اظہار کیا.اس کے بعد آپؑ نے جوکیا وہ بھی آپ کی اسی جلالی طبیعت کا مظہر ہے. اس حوالے سے فرمایاگیا: وَ اَلۡقَی الۡاَلۡوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاۡسِ اَخِیۡہِ یَجُرُّہٗۤ اِلَیۡہِ ؕ ’’اور(شدتِ غضب سے آپ نے تورات کی) تختیاں (زمین پر)ڈال دیں اور اپنے بھائی ہارون کے سر (کے بال)پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے‘‘.بلکہ داڑھی اور پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچا اور کہا کہ تم نے ان کو روکا کیوں نہیں؟میں توتمہیں یہاں خلیفہ بنا کر گیا تھا اور تمہارے ہوتے ہوئے یہاں یہ سب کچھ ہوگیا تو تم مجھے بتانے کے لیے میرے پیچھے کیوں نہیں آگئے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اندیشہ یہ ہوا کہ آپ کہیں گے کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ پیدا کر دیا‘جبکہ میں نے انہیں روکنے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن یہ کہ تفرقہ کے ڈر سے میں نے کوئی بہت بڑا اورا نتہائی قدم نہیں اٹھایا.