بنی اسرائیل کے اس شرک کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم نازل ہوا کہ بارہ قبیلوں میں سے ہر قبیلے کے جتنے لوگوں نے یہ شرک کیا ہے‘ انہیں اسی قبیلے کے وہ لوگ قتل کریں جو توحید پر قائم رہے ہیں .چنانچہ تورات کی روایت کے مطابق ستر ہزار یہودی قتل ہوئے . اسی بنا پر اسلام میں بھی مرتد کی سزا قتل ہے ‘ لیکن آج کل کے منکرین حدیث اور روشن خیال دانشور اس سزاکو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ مغرب سے اپنی روشن خیالی کی سند لینا چاہتے ہیں اور مغرب کا تصور یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے میں انسان کومکمل آزادی حاصل ہے.اُن کا کہنا ہے کہ ایک مسلمان کو اگر عیسائیت پسند آ گئی اور وہ عیسائی ہوگیا تو یہ اُس کا حق ہے اور اس طرح کرنے سے وہ کوئی مجرم نہیںبن جاتا. ایسے شخص کو قتل کیا جاناانسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے. اسی طرح اگر کوئی مرد اورعورت رضامندی سے زنا کاارتکاب کرتے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ یہ ان کا حق ہے اور ایسا کرنے سے وہ مجرم نہیں ٹھہرتے . البتہ اگر کسی نے نابالغ لڑکی سے زنا کیا ہے یا کسی عورت کی زبردستی عصمت دری کی ہے تو اس صورتِ حال میں یہ جرم شمار ہوگا اور ایسا کرنے والا مجرم‘ لیکن اگر باہمی رضامندی شامل ہے تو پھرکوئی جرم نہیں ہے. 

مغرب میں رائج حقوق انسانی کے مبالغہ آمیزتصور کی رومیں بہہ کر ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ قتل ِمرتداور رجم کے بارے میں مختلف قسم کا پروپیگنڈا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن میں توقتل مرتداوررجم کی سزاکا کہیں ذکر نہیں ہے ‘تو پھر تم نے یہ سزائیں کہاں سے نکال لی ہیں؟اس حوالے سے جان لیجیے کہ حضوراکرم نے یہ دونوں سزائیں تورات سے اخذ کرکے اپنی سنت کے ذریعے سے نافذ کی ہیں. ظاہر بات ہے کہ حضوراکرم سے پہلے تو دنیا میں شریعت موسوی رائج تھی. یہودیوں کے لیے شریعت موسوسی تھی اور اسی طرح عیسائیوں کے لیے بھی‘ کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ یہ نہ سمجھنا کہ میں شریعت (موسوی) کو ختم کرنے آیا ہوں‘بلکہ تم پر یہی شریعت لاگو رہے گی.آپؑ کے بعد سینٹ پال نے آکر شریعت کو ختم کیا ہے. اس لحاظ سے آج کی عیسائیت بڑا عجیب مذہب ہے جس میں کوئی قانون ہے ہی نہیں‘ جبکہ یہودی اپنے تئیں شریعت موسوی پر کاربند ہیں. اسلام میں بہرحال قوانین بھی ہیں او رانسانی حقوق کی حدودبھی مقرر ہیں.لہٰذا اگر آپ مسلمان ہیں اور آپ کو کوئی اور دین پسند آ گیا ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ آپ مسلمان ملک کو چھوڑ کر چلے جائیں. لیکن دارالاسلام میں رہتے ہوئے آ پ کو مرتد ہونے کا کوئی اختیار نہیں ہے.اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو سزاکے طور پر اُسے قتل کردیا جائے گا.