کتاب و سنت :شریعت کی مستقل ِبالذات ّبنیادیں

یہ بات میں نے آپ کو اتنی تفصیل سے اس لیے سنائی ہے کہ قتل مرتد اور رجم کی سزائیں قرآن میں مذکور نہیں ہیں‘ لیکن ازروئے قرآن تورات پر بھی لفظ ’’قرآن‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے . چنانچہ مکہ کے کفار و مشرکین کا ایک قول قرآن مجید میں یوں نقل ہوا ہے: وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ بِہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ وَ لَا بِالَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ ؕ (سبا) ’’اور کہا انکارکرنے والوں نے کہ ہم ہرگزایمان نہیں لائیں گے اس قرآن پر اور نہ اُس (قرآن) پر جو اس سے پہلے تھا‘‘. تو یہاں تورات پر قرآن کے لفظ کا اطلاق ہوا ہے اور حضوراکرم نے یہ دو سزائیں تورات سے لی ہیں .یہاں یہ اصول بھی یاد رکھیں کہ شریعت صرف قرآن پر مبنی نہیں ہے ‘بلکہ شریعت کی دو مستحکم اور مستقل بالذات (independent of each other) بنیادیں ہیں اور وہ ہیں:کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ .البتہ ہمارے ہاں بعض لوگ ایسے موجود ہیں جو صرف قرآن کو شریعت کی بنیاد سمجھتے ہیں.یہ اہل قرآن کہلاتے ہیں‘لیکن ان کو منکرین حدیث کہنا زیادہ مناسب ہے ‘اس لیے کہ یہ حدیث اور سنت کو شریعت کی بنیاد نہیں مانتے.پھر یہ لوگ اسلام کی مختلف باتو ں کی جو تعبیریں کرتے ہیں ‘ ان میں سے کسی ایک بات پر ان میں سے دو آدمی بھی متفق نہیں ہیں.مثلاً ان میں سے ہر کوئی صلوٰۃ کے الگ معنی بیان کرتا ہے‘ جبکہ اس سے نماز مراد لینا تو سنت ِرسول اللہ سے معین ہوا ہے. چنانچہ رسول اللہ نے فرمایا: صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ (۱’’نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو‘ ‘. بہرحال شریعت کی دومستحکم بالذات بنیادیں ہیں اور حدیث و سنت کے بغیر قرآنی احکام کی صحیح تعبیر ممکن نہیں.